لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی زیر سربراہی قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے الیکشن کمشن کی طرف سے عام انتخابات عدلیہ کی زیر نگرانی کرانے کی درخواست پر فیصلہ مو¿خر کردیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کچھ معاملات میں الیکشن کمیشن سے مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ان نکات کی وضاحت کے بعد چیف الیکشن کمیشن کی درخواست پر کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے گا۔ قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہوا۔ اجلاس میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس آغا رفیق، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مسٹر جسٹس مشیر عالم،چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مسٹرجسٹس قاضی فائز عیسی،پشاور ہائی کورٹ کے سیئنر ترین جج مسٹر جسٹس مفتاح الرحمن،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن، ہائی کورٹس کے رجسٹراروں کے علاوہ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میںچیف الیکشن کمیشن کی طرف سے دی جانے والی اس درخواست پر غور کیا گیا جس میں آئندہ عام انتخابات عدلیہ کی زیر نگرانی کرانے کی اجازت دینے اورقومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کی طرف سے عائد پابندی ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔ اڑھائی گھنٹے سے زائد رہنے والے اجلاس میں ان نکات پر غور کیا گیا۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر حسین نے میڈیا کو بتایا کہ اجلاس میں چیف الیکشن کمیشن کی طرف سے عدلیہ کی زیر نگرانی انتخابات کرانے کی درخواست کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی کے ارکان نے کچھ نکات اٹھائے ہیں جن پر چیف ا لیکشن کمیشن سے وضاحت آنے کے بعد نیشنل جوڈیشل پالیسی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی عدلیہ کی زیر نگرانی انتخابات کےلئے دی گئی درخواست پرحتمی فیصلہ کیاجائے گا۔ اس سے پہلے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ سیاسی جماعتوں کی بہت عزت کرتی ہے، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے ماتحت عدلیہ کے ججوں کے انتخابی عمل کا حصہ بننے پر پابندی لگائی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) فخر الدین جی ابراہیم نے ان کو بتایا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدلیہ کی زیر نگرانی انتخابات چاہتی ہیں۔ عدلیہ پر اعتماد کرنے پر وہ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے زیرانتظام انتخابات کا انعقاد دستور کی فتح ہے۔ انتخابات قومی معاملہ ہے۔ ان کے بروقت انعقاد سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کرانے کی درخواست کو جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے سامنے رکھا گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں اور وہ ان کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کی انتخابات کی نگرانی سے متعلق درخواست پر مکمل غور کیا جائے گا۔ اجلاس کے بعدپالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میںماتحت عدلیہ کے ججز کو ریٹرننگ افسروں کی ذمہ داریاں دینے کے لئے الیکشن کمیشن کی درخواست پر غور کے علاوہ زیر التوا مقدمات نمٹانے، عام آدمی کو انصاف کی فراہمی اور جوڈیشل پالیسی پر عمل درآمد سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات آئین کے تحت ہونا دستور کی فتح ہے۔ انتخابات قومی معاملہ ہے، یہ اداروں کو مضبوط بناتے ہیں۔ دریں اثناءقومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں ججوں کی عام انتخابات میں معاونت پر الیکشن کمشنر کی درخواست کا جائزہ لیا گیا اور کہا گیا کہ الیکشن کمشن وضاحت کرے کہ جوڈیشل افسر آزادانہ انتخابات کیلئے کتنا موثر ہے، دھاندلی کے سدباب کیلئے کیا اقدامات کئے گئے، الیکشن کمشن نے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے کیا اقدامات کئے وہ اس سے آگاہ کرے۔ جوڈیشل کمیٹی نے زیر التوا مقدمات نمٹانے کی میعاد میں 31 دسمبر 2012ءتک توسیع کر دی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ صوبوں کے چیف جسٹس ماتحت عدلیہ کی کارکردگی اور دیئے گئے اہداف کا جائزہ لیں گے۔ چالان بروقت پیش نہ کرنے سے کیسز نمٹانے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ تفتیش مکمل نہ ہونا بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ کمیٹی نے جیلوں میں قیدیوں کی حالت اور ان کی تعداد کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ الیکشن کمشن سے ریٹرننگ افسر اور عملے کی سکیورٹی کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں بتایا جائے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو کیا مالی اور انتظامی سہولیات ملیں گی۔ چیف جسٹس نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز سے کہا کہ وہ ضلعی عدلیہ کی کارکردگی مانیٹر کریں۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سب کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔
عدلیہ کی زیرنگرانی انتخابات ‘ قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے الیکشن کمشن کی درخواست پر فیصلہ موخر کر دیا
Nov 04, 2012