شاہراہ قائداعظم کے بائیں جانب نہر کے ریلوے پھاٹک سے نیچے اترتے ہی لاہور کی ایک خوبصورت، درویشوں کی بستی شروع ہو جاتی ہے، یہ حضرت میاں میر کی بستی ہے۔ اسی علاقہ کے سامنے پیر فضل حسین شاہ صاحب (نوروالوں کا ڈیرہ) ہے۔ اور پھاٹک کی بائیں نکر پر پیر نصیرقادری صاحب کا روحانی ڈیرہ ہے جس کے ساتھ ایک بڑا دینی مدرسہ بھی ہے۔ جہاں چوبیس گھنٹے درس تدریس اور روحانی محفلیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں سے دھرم پورہ شروع ہو جاتا ہے اور اس بازار کے دائیں جانب ڈاکٹر مظفر بیگ مرزا کا ڈیرہ ہے، جس کا نام تو معظم کلینک ہے جو ان کے والد محترم ڈاکٹر معظم بیگ مرزا کا کلینک تھا جو لاہور کے نامور فیملی فزیشن تھے اور 1994ءتک درویشوں کی اس بستی کے لوگوں کی خدمت میں مصروف رہے۔ دھرمپورہ کا موجودہ نام مصطفےٰ آباد بھی اسی نسبت سے ہے۔دھرم پورہ میں واقع معظیم کلینک بھی اپنی ساحرانہ وجہ شہرت کے باعث مشہور ہے گزشتہ کئی سالوں میں بھی اس ڈیرہ کے مریدوں میں شامل ہوں، میں نے اپنے سامنے کئی مریضوں کو چیخ و پکار کرتے اور درد کی شدید تکلیف میں آتے دیکھا ہے اور ہنستے کھیلتے واپس جاتے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو صرف مینوئل طریقے سے ہی انہیں دباتے ہیں اور وہ نارمل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مظفر بیگ مرزا صاحب آکوپنکچرسٹ اور مینوئلسٹ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ انسانی جسم میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جاتا ہے اس کا کوئی ظاہری سبب ہو یا اندرونی نظام میں خرابی، انسان تکلیف میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ انسانی ہڈیوں کا ڈھانچہ وقت کے ساتھ جونہی بدلنا شروع ہوتا ہے اس کا علاج شروع کر دینا چاہئے۔ ڈاکٹر مظفر بیگ مرزا نے بتایا کہ ان تکلیفوں میں مبتلا مریض جب میرے پاس آتے تو میں کوئی دوا استعمال نہیں کراتا۔ یہ طریق علاج کا نام ہی (الٹرنیٹو میڈیسن) ہے یعنی دواﺅں کے بغیر علاج۔ جبکہ آرتھوپیڈک ڈاکٹروں کے پاس شدید درد کے علاج کیلئے انتہائی تیز ادویات استعمال کراتے ہیں جن کے سائیڈ افیکٹ سے دیگر بیماریاں مریض کو گھیر لیتی ہیں۔ آکوپنکچرسٹ طریق علاج کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے بھی تسلیم کرلیا ہوا ہے۔ آکوپنکچرسٹ کو معلوم ہوتا ہے کہ جس میں کہاں پوائنٹس ہیں جنہیں سوئیوں کے ذریعہ یا مینوئل طریقہ سے دبا کر مریض کو سکون دینا ہے۔ بہت سے مریض مینوئل طریقہ علاج سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور بہت کم لوگوں کو سوئیاں لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیگر کئی شعبوں کی طرح میڈیکل سائنس بھی مغربی غلبہ کے زیر اثر ہے۔ اس لئے نہ تو اس طریق علاج کو سرکاری سطح پر پذیرائی حاصل ہو سکی ہے، اور نہ قومی صحت پالیسی میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں اس کو نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں کوئی دوائی استعمال ہی نہیں کرائی جاتی۔ ڈاکٹر مظفر بیگ مرزا نے مزید بتایا کہ یہ طریقہ علاج صرف ہڈیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے ذریعہ شوگر‘ بلڈپریشر‘ نزلہ زکام کھانسی‘ امراض قلب و جگر‘ سانس‘ پھیپھڑے اور تمام امراض کا شافی علاج موجود ہے۔ اگر پاکستان میں اسکی حوصلہ افزائی کی جائے تو ملک کے کروڑوں عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے ستائے ہوئے مریض بھی آتے ہیں، جو بغیر میڈیسن چند روز میں معجزانہ طور پر صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ جن میں کئی نامور سیاستدان، صنعتکار اور ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر مزید حیرت ہوئی کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین جو پاکستان کا گہرا اورسچا دوست ہے اس ملک میں صرف یہی طریق علاج رائج ہے۔ حکومت پاکستان کو ڈاکٹروں کا ایک بڑا وفد چین بھیجنا چاہئے جو یہ معلوم کرکے آئے کہ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک میں لوگ ایلوپیتھک طریق علاج کے بغیر کیسے زندہ ہیں، اور الٹرنیٹو طریق علاج پاکستان میں کس طرح رائج کرکے عوام کو ایلوپیتھک مافیا سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
درویشوں کی بستی کا مسیحا
Nov 04, 2013