آئندہ سالوں میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح میں کمی اور بیروز گاری میں اضافہ کی وارننگ ”روپے کی قدر گرنے اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی مزید بڑھے گی“ آئی ایم ایف.... اس رپورٹ کے پہلو بہ پہلو دو خبریں۔
مہنگائی سے تنگ ”6 بیٹیوں“ کے باب اور 17 سالہ لڑکی نے خودکشی کرلی۔ اب مزید مہنگائی کیا برھنی ہے موجودہ شرح ہی غریب کو مار ڈالنے کیلئے کافی ہے۔ پچھلے 8 سالوں سے ہر سال ”ایک کروڑ 65 لاکھ“ جانور قربان کئے جاتے رہے ہیں مگر اس مرتبہ صرف ”65 لاکھ“ جانوروں کی قربانی دی گئی۔ یہ نمایاں طور پر محسوس کی گئی کہ گائے اور اونٹ کی قربانی میں 15 فیصد اضافہ ہوا اور بکروں، چھتروں کی قربانی میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ اجتماعی قربانی کا بڑھتا ہوا رجحان قیمت خرید کی کم ہوتی ہوئی سکت کو ظاہر کرتا ہے۔ لوڈشیڈنگ عروج پر ہے حالانہ موسم قدرے سرد ہو چکا ہے، اوپر سے شنید ہے کہ پنجاب میں سردیوں میں صرف کھانا پکانے کیلئے گیس دینے پر غور ہورہا ہے۔ ”مرے کو مارے شاہ مرار“ یہ حکومت کا عوام کو ایک اور تحفہ ہے، مگر ان سب کے باوجود قیمتوں میں اضافہ کو روک نہیں رہے، قیمتوں میں اضافہ کے خلاف قابل احترام ”معزز عدلیہ“ کا فرمانا ہے کہ ”2 روپے والی بجلی 16 روپے“ میں نہیں بیچنے دینگے۔ ”سپریم کورٹ“ نے صوابدیدی طور پر قیمتوں کا تعین کرنے سے انکار کردیا۔
اداروں کے مابین بڑھتا ہوا ٹکراو¿ ہمیشہ سے عوام میں تشویش پیدا کرنے کا مو¿جب رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تقرری بابت ”اعلیٰ عدلیہ“ کے واضع احکامات کے باوجود کچھ افسران کی تقرریوں کیلئے عمر کی حد ختم کرنے کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ ہم نہیں سمجھتے کہ قیادت مسائل سے یکسر لاعلم ہے یا وہ حل سے اغماض برت رہی ہے۔ ”ہماری کتاب“ کے مطابق قیادت نہ صرف یکسو ہے بلکہ کام کرتی نظر بھی آرہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بیرون ممالک .... جبکہ واضح ہے کہ اندرونی حالاست درست کئے بغیر نہ تو مزید سرمایہ کاری ممکن ہے اور نہ ہی مزید امداد کی توقع رکھنا درست ہوگا۔ عوام سراپا سوال ہین کہ حکومت بدلنے سے فرق کیا پڑا ہے؟ اکثریت کے نزدیک صرف اتنا کہ عوام کی گردن میں پڑا پھندا اور کَس کر سخت کر دیا گیا ہے۔ ”وزیر اعظم“ صاحب کی پہلی، دوسری، تیسری ترجیح معیشت تھی مگر افسوس کہ حالات، اقدامات معیشت کی بہتری کی جانب مڑنے سے انکاری ہیں۔ عوامی حلقوں میں بیانات اور عمل کے تضاد کو اب بری طرح سے محسوس کیا جارہا ہے۔ ڈوبتی معیشت کو مزید قرضوں کی آکسیجن لگا دینے سے معاملات سدھرنے سے رہے۔ اکثریت موجودہ عہد کو ”میثاق جمہوریت ۔ فیز ٹو“ کا نام دے رہی ہے۔ اوپر سے میدیا کی نا سمجھ کاری اور بریکنگ نیوز کا چکر حالات کو خراب کررہا ہے۔ عوام جھنجھلا رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ ”میڈیا“ اپنے گندے کپڑے سرعام نہ دھوئے اور نہ ہی بلاوجہ آگ بھڑکاتی خبروں کو تیل دے۔ کچھ حلقوں کے نزدیک حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ”میثاق جمہوریت ۔ فیز ٹو“ کی ساری بدانتظامی، بد اعمالی، کرپشن گرد و غبار میں اڑتی جارہی ہے۔ کچھ سوال بے طرح سے پریشان کئے ہوئے ہیں۔ نمبر I پاکستان کی قسمت کیا ہے، کیا وجہ ہے کہ ہر آنے والا دن گزرے دنوں کو ”سنہری حروف“ میں لکھتا جاتا ہے۔ لمحہ موجود کی قیادت معتوب ہوتی اور رخصتی کے بعد ”پیاری“ لگنی شروع ہو جاتی ہے۔ عوام کی توقعات ایک کو ووٹ دینے کے بعد جلد ہی دم کیوں توڑ جاتی ہیں؟ رخصت ہونے کے بعد قابل معتوب لوگ پھر کیوں عوامی امنگوں، خواہشات کے مطابق بیانات دیتے ہیں؟ اقتدار سنھبالتے ہی ”قیادت“ اپنے اقدامات میں توازن جلد ہی کھو دیتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا ان سب کا جواب یہ نہیں کہ قیادت پورے قد سے کھڑی نہ۔ تمام مسائل کا حل ممکن ہے بس حکومت اپنے فرائض کو محسوس کرے۔ اپوزیشن، سول سوسائٹی ”ماضی کے گودام“ سے باہر نکل آئیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے سرگرم ہوں۔ محض بیانات پیٹ بھرنے یا دہشت گردی کی آگ بجھانے کیلئے کافی نہیں۔ سب لوگ حکومت کو وقت ضرور دیا کریں۔