گذشتہ ماہ لاہور میں ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں معروف ادیب شاعر محقق شریک ہوئے ان میں ڈاکٹر عبداللہ حسین‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ ڈاکٹر خلیل وقار بنگلہ دیش سے محمود الاسلام کے علاوہ دیگر ممالک سے مہمان تشریف لائے مگر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا مکالہ سب سے منفرد اور اچھوتا تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ حسین نے اپنے صدارتی خطاب میں صدر پاکستان پر پھبتی کستے ہوئے کہا کہ صدارت کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے کچھ نہ کچھ کہنا پڑتا ہے چاہے کچھ آتا جاتا ہو یا نہ ہو۔ شاید اسی کے جواب میں جناب صدر ممنون حسین نے وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینٹ کے اجلاس میں لب کشائی کرتے ہوئے ثابت کیا کہ وہ قومی معاملات خصوصاً اردو کے حوالہ سے آگاہی بھی رکھتے ہیں ۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے سینٹ کے پچیسویں اجلاس منعقدہ گورنر ہاﺅس کراچی میں خطبہ صدارت میں واضح الفاظ میں صدر نے کہا کہ قومی زبان میں تعلیم سے ملکی سماجی معاشی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وطن عزیز کا واحد ادارہ ہے جہاں قومی زبان میں اعلیٰ تعلیم کا اہتمام ہے اس کے مزید کیمپس حیدر آباد اور دیگر شہروں میں کھولیں جائیں گے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ارتھ سائنس‘ جیولوجی کی تعلیم کے لئے جامعہ اردو کے کیمپس قبائلی علاقوں میں بھی قائم کئے جائیں گے۔ جامعہ کے وائس چانسلر نے بتایا کہ مالی مجبوریوں کے باوجود یونیورسٹی نے بزنس مینجمنٹ فارمیسی اور ایجوکیشن کےلئے نئے ڈیپارٹمنٹ بنائے ہیں جس کے لئے عمارتیں درکار ہیں۔ صدر ممنون حسین نے یقین دہانی کرائی کہ قومی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی افادیت کے پیش نظر وفاقی اردو یونیورسٹی آرٹس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تمام ضرورتوں کو ترجیحی بنیاد پر پورا کیا جائے گا۔
صدر مملکت کے قومی زبان کے حوالے سے واضح موقف بڑا خوش آئند اور امید افزا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ نظریہ پاکستان کی مخالف قوتیں زور پکڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں تدریسی ذریعہ انگلش اپنایا گیا جبکہ صوبہ سرحد کا بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی کو ہی ذریعہ تعلیم قرار دینا آئین پاکستان سے روگردانی ہے۔ تحریک انصاف کا تبدیلی کا نعرہ محض زبانی جمع خرچ ہے۔ جس منشور کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی اس میں صاف درج ہے کہ ابتدائی تعلیم قومی اور علاقائی زبانوں میں ہو گی مگر تحریک کے منشور اور آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ سرحد میں پنجاب کی طرح جبراً انگلش کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اعلان تحریک انصاف کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔
نومبر 2010ءپنجاب حکومت کے فیصلے کے خلاف قومی زبان تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی جس کے تحت صوبہ بھر میں کانفرنسیں‘ سیمینار‘ مذاکرے‘ کنونشن منعقد ہوئے۔ احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ سیاسی مذہبی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کی گئیں۔ اردو کے حق میں پمفلٹ اور کتابچے تقسیم کئے گئے۔ حکام بالا کو خطوط ارسال کئے جس میں واضح کیا گیا کہ کوئی قوم غیر زبان میں ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی ہمیں اپنی قومی زبان پر فخر ہونا چاہئے کیونکہ آج کی دنیا میں اردو چند بڑی زبانوں میں شامل ہے جس کے بولنے سمجھنے والے دنیا کے ہر گوشہ میں پائے جاتے ہیں۔ قومی زبان تحریک نے عوامی رابطے کے ساتھ ساتھ قانونی چارہ جوئی بھی کر رکھی ہے۔ معروف ملکی ماہر قانون جناب اے کے ڈوگر کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں حکومت پنجاب کے اس غیر آئینی غیر قانونی اقدام کو چیلنج کیا گیا۔ الحمد اللہ موجودہ امتحانات میں حکومت پنجاب کے رویے میں تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ماہ نومبر میں حکومت پنجاب کی جانب سے قومی امنگوں اور آئین پاکستان کے احترام میں قومی زبان کے حوالہ سے مثبت فیصلہ کیا جائے گا۔ ایسی ہی ایک درخواست محتسب پنجاب کو دی گئی ہے مگر چند غیر ذمہ دار اساتذہ نے مختلف کالجوں اور اکیڈمیز کے طلبہ کی جانب سے محتسب پنجاب کے روبرو اردو کی بجائے پاک سٹڈیز انگلش میں امتحان کی استدعا کرتے ہوئے قومی زبان کے بارے میں ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے۔ راقم قومی زبان پنجاب کے صدر کی حیثیت سے موقع پر موجود تھا لہذا ان نوجوانوں کو بتایا کہ اردو کو ہمارے عظیم قائد نے قومی زبان قرار دیا جس کو آئین پاکستان تحفظ دیتا ہے۔ ہمارا دین‘ ہماری تاریخ‘ ثقافت‘ ادب اور فنون لطیفہ کا صدیوں پر پھیلا ذخیرہ اردو زبان میں محفوظ ہے۔ اردو ترک کرکے ہم تمام ورثہ سے محروم ہو جائیں گے۔ جس پر وہاں موجود نوجوانوں کے ایک کثیر گروہ نے فیصلہ واپس لیتے ہوئے عہد دیا کہ وہ قومی زبان تحریک کا حصہ بنیں گے۔
آپ سے مزید استدعا ہے کہ صوبوں کو قومی زبان کے مسئلے پر آئین پاکستان کا پابند رہنے کےلئے اپنا اثر و رسوخ اور اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کو یقینی بنائیں جس سے آئندہ نسلوں اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم ہو سکے۔
قومی زبان ....صدر ممنون اورصوبے
Nov 04, 2013