زبانوں کو نہ زنجیریں بنائیں
فقط اک دائرے میں خود کو لائیں
بزرگوں کی تڑپ جائیں گی روحیں
کہ آنگن میں نہ دیواریں اٹھائیں
وطن منڈی میں سب کچھ غیرملکی
کہ رہبر تک یہاں دیسی نہ پائیں
کتابیں ”زاغ نامے“ لکھ دیے ہیں
کھلا، شاہیں کو زاغوں سا بنائیں
نصابوں کے مزاجوں میں سحاب اب
کہیں اقدار کی خوشبو دکھائیں