متحدہ مسلم لیگ متحدہ پاکستان کی یاد دلاتی ہے

آزاد بن حیدر نے آل انڈیا مسلم لیگ کے حوالے سے ایک ضخیم بلکہ دیہاتی زبان میں موٹی تازی تحقیقی کتاب لکھی ہے ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل کتاب پاکستان کے دشمنوں کی طرف پھینکی جائے تو اُن کا کچومر نکل جائے۔ آزاد صاحب اب آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے کتاب لکھیں مگر یہ نام جنرل مشرف نے اپنی مصنوعی جماعت کے لئے پسند کر لیا ہے۔ سیاسی جرنیلوں نے مسلم لیگ کو اپنے اقتدار کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ مسلم لیگ کی توہین ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بنائے جانے کے بعد بھی زیب نہیں دیتا کہ ہم پاکستان کی خالق جماعت کو آل پاکستان مسلم لیگ کہیں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ نام ہوتا تو شاید اس کے اثرات مرتب ہو جاتے۔ پھر شاید بنگلہ دیش نہ بنتا۔ وجوہات اور بھی ہیں سیاسی بھی عسکری بھی مگر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور پھر مسلم لیگ کو جرنیلوں نے اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا۔ عجیب دردناک بلکہ شرمناک حقیقت ہے کہ پہلے اور آخری صدارتی انتخابات کو عام انتخابات نہ بننے دیا گیا۔ اس انتخابات میں صدر جنرل ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح دونوں مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ۔ مسلم لیگ کی امیدوار بانی¿ پاکستان قائداعظمؒ کی بہن موزوں ترین تھیں۔ میں نے تو ایک کالم میں لکھا تھا کہ قائداعظم کے بعد پاکستان کی گورنر جنرل محترمہ فاطمہ جناح کو ہونا چاہئے تھا۔ تو پھر قائداعظم کے ساتھیوں کی حکومت نہ ٹوٹتی۔ ایوب خان کی بدقسمتی ورنہ وہ مادر ملت کے حق میں دستبردار ہو جاتے۔ مسلم لیگ ایک ہوتی تو پاکستان بھی نہ ٹوٹتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام کے ساتھ قائداعظم کا نام نہ تھا۔ تو اب حکومتی پارٹی مسلم لیگ کے نام کے ساتھ نوازشریف کیوں ہے۔ مسلم لیگ ن، ق، ج بلکہ الف ب ج کا ہونا بدقسمتی اور شرمناک بات ہے۔
ایوان کارکنان پاکستان میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام آزاد بن حیدر کی شاندار اور تاریخی کتاب کی تقریب ہوئی۔ آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے صدارت کی۔ مہمان خصوصی گورنر پنجاب چودھری محمد سرور تھے۔ شاہد رشید نے ولولہ انگیز کمپیئرنگ کی۔ ڈاکٹر مجید نظامی مسلم لیگوں کے اتحاد کے سب سے بڑی حامی اور محرک ہیں۔ انہوں نے ہرممکن کوشش کی مگر انہوں نے فرمایا کہ اب یہ میری خواہش ہے۔ میرے خیال میں خواہش کوشش سے بڑی ہوتی ہے۔ کوشش تو ختم بھی ہو جاتی ہے خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ نظامی صاحب نے تو یہ کہا کہ میں عمر کے اس حصے میں نہیں ہوں کہ متحدہ مسلم لیگ کا صدر بنوں۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ متحدہ مسلم لیگ کے صدر بنیں۔ یہ بات انہیں چودھری شجاعت نے بھی کہی تھی جب مسلم لیگوں کو متحد کرنے کے لئے کوشش ہو رہی تھی۔ تو پھر کون نہیں چاہتا کہ مسلم لیگیں متحد ہوں۔ نوازشریف حکومت میں ہیں یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اعلیٰ ظرفی سے کام لیں اور شہباز شریف بھی اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم لیگ ق کے وزیروں اور ممبران اسمبلی کو قبول کرنے کے بعد مسلم لیگوں کے اتحاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ اب تو متحدہ مسلم لیگ کا خیال متحدہ پاکستان کے لئے سوچ کر ہمارے دلوں میں تڑپتا ہے۔
ڈاکٹر مجید نظامی نے آزاد بن حیدر کو مبارکباد دیتے ہوئے اس تحقیقی کام کو کارنامہ قرار دیا۔ انہوں نے حکومت پنجاب پر زور دیا کہ اس کتاب کو تمام لائبریریوں میں رکھوایا جائے۔ بشریٰ رحمان نے تمام سیاستدانوں کو مجید نظامی کی قیادت میں متحد ہو جانے کی تلقین کی۔ نظامی صاحب نے کہا کہ بشریٰ رحمن بلبل پاکستان تھیں، اب نجانے کیا ہیں؟ یہ بات ان سے پوچھی جائے جنہوں نے بشریٰ بی بی کو اسمبلی میں یہ خطاب دیا تھا۔ یہ بات عام لوگوں سے پوچھی جائے جو بشریٰ رحمن کو سنتے ہیں اور پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں مگر بشریٰ رحمان ابھی اتنی بوڑھی نہیں ہوئیں۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے لکھی ہوئی تقریر پرے رکھ دی اور براہ راست دل میں اتر جانے والی باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دو قومی نظریہ ختم ہو گیا ہے۔ ہم اسے پوری طرح سنبھال نہیں سکے تو یہ ہمارا قصور ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہم ان کی قیادت میں اپنی منزل ضرور حاصل کریں گے۔ چودھری سرور نے اپنی جیب سے ایوان پاکستان میں صاف پانی کے لئے واٹر پیوری فیکیشن پلانٹ لگانے کا اعلان کیا۔ وہ پورے پنجاب میں بچوں کے لئے یہ پلانٹ لگوا رہے ہیں۔ فروغ تعلیم کے لئے اُن کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
سعودی عرب پاکستان فورم کے صدر مسعود احمد پوری اور میمونہ غلام مرتضٰی ملک نے مجید نظامی اور چودھری محمد سرور کو گلدستہ پیش کیا اور معروف نعت گو شاعر اور نعت خواں سرور نقشبندی نے اپنا نعتیہ رسالہ ”مدحت“ پیش کیا۔ مجدد نعت حفیظ تائب سرور نقشبندی کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ مرحوم حفیظ تائب کئی بار ایوان پاکستان میں تشریف لائے۔
محترم فاروق الطاف معروف کالم نگار آصف بھلی پیر کبیر علی شاہ اور شاہد رشید نے بھی خطاب کیا۔ کتاب کے مصنف ابن حیدر نے اپنا نام آزاد رکھا ہے۔ انگریزوں کی غلامی کے دنوں میں کثرت سے لوگوں نے اپنا نام آزاد رکھا۔ آزادی کی آرزو آزادی سے بڑی ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا مگر پاکستانی نہ بن سکے۔ اب ہم آزاد ہو چکے ہیں تو اس نام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ شاید ہم آزاد ہو کر بھی آزادی کی معنویت اور کیفیت سے ابھی تک آشنا نہیں ہو سکے۔ ظاہری غلامی اصلی غلامی سے بھی بدتر ہوتی ہے ایسے میں آزاد بن حیدر کی کتاب کا مطالعہ ہمیں نیا جذبہ عطا کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن