پیر ‘ 29 ذی الحج 1434ھ ‘ 4 نومبر2013ئ

پیر ‘ 29 ذی الحج 1434ھ ‘ 4 نومبر2013ئ

پنجاب میں گذشتہ روز حکومتی سطح پر انسداد ڈینگی ڈے منایا گیا۔اس حوالے سے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اعلان کیا کہ انسداد ڈینگی مہم کو تحریک کے طورپر آگے بڑھایا جائے گا۔ شہباز کی اس بلند پروازی کا اس سے ہی اندازہ لگا لیجئے کہ پنجاب میں ڈینگی کے بعد خناق کی وبا بھی پھوٹ پڑی ہے جس میں 16 بچے جاں بحق ، ریڈ الرٹ جاری !
موسم سرما کے آغاز میں ہی بروقت حفاظتی اقدامات نہ کرنے کے باعث پہلے تو ڈینگی کا خطرہ سر اُٹھا چکا ہے۔ دوسری طرف اب خناق بھی کوبرا سانپ کی طرح پھن پھیلائے معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگا ہے۔ زیادہ تر اموات پنجاب کے ان علاقوں میں ہوئی ہیں جہاں بچوں کو خناق سے بچاﺅ کے ٹیکے نہیں لگائے گئے۔ یوں تو حکومت ملک بھر میں بچوں کو امراض سے بچاﺅ کیلئے ویکسین اور ٹیکے لگانے کے بڑے بڑے اشتہارات شائع کراتی ہے۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو پر بے شمار بیانات اور پروگرام بھی ہوتے ہیں مگر اصل کام یعنی بچوں کو ٹیکے لگانے اور ویکسین کا کام اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوتا جتنا اشتہارات میں نظر آتا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ حکومت اشتہاری مہم پر خرچ کی جانے والی کروڑوں کی رقم اگر ان بیماریوں سے بچاﺅ کی ادویات اور ٹیکوں پر خرچ کرے تو پورے ملک میں کوئی بچہ ان بیماریوں کا شکار نہ ہواور والدین بھی اس معاملے میں کوتاہی نہ کریں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔حکومت پنجاب کا دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک بہتر امیج بنا ہوا ہے یہاں کے وزیر اعلیٰ کے اقدامات پر ملک بھر کے عوام اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ محکمہ صحت پنجاب کی اس کوتاہی پر فوری نوٹس لیں گے یا پھر دیگر مصروفیات کی وجہ بیرون ملک زیادہ ٹائم گزارنا پسند کریں گے۔ اس وقت پنجاب کو اپنے خادم اعلیٰ کی زیادہ ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کو خناق اور ڈینگی سے مرتا ہُوا نہیں دیکھ سکتے اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ ڈینگی اور خناق کے خلاف اپنا مورچہ سنبھالیں اور جہاں جہاں محکمہ صحت سے کوتاہی ہوئی ہے وہاں اس کا ازالہ کریں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
افغان جنگ ختم ہونے کے قریب، ہمیں مشکلات کا پہاڑ نظر آ رہا ہے : ترجمان ایساف !
پہلے تو کوئی ایساف والوں سے یہ پوچھے کہ انہیں ایسا کرنے کا کس نے کہا تھا وہ تو افغانستان سے روسی ریچھ کو بھگانے کیلئے مدد دینے آئے تھے اور بعد میں بدو کے اونٹ کی طرح خود خیمے میں گھس کر بیٹھ گئے ۔ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے روسی افواج کی شرمناک واپسی بھول گئی تھی۔
افغانستان کی تاریخ دیکھ لیں یہاں آنے کی حماقت کرنے والے اس کے بنجر و بیابان پہاڑی سلسلوں میں بے آب و گیا سطح مرتفع کی وسعتوں میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے موسموں کی شدت بھی بیرونی لشکروں کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتی، یہاں گوریلا جنگ لڑنے والے قبائل دور دور ٹکڑیوں میں بٹے ہونے کی وجہ سے آنے والوں کو قدم قدم پر موت کا تحفہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہی سخت کوش زندگی بدلے کی آگ اور قتل و غارت گری، لوٹ مار سے انسیت ان پہاڑی لوگوں کی غیرت و وطن سے محبت کی طرح عزیز ہے جس کی ترجمانی کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوب کہا تھا ....
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
اب ایساف کو اگر اس کوہ گراں سے خوف آ رہا ہے اور اسے سر بھی کرنا ہے تو اسے کسی نہ کسی مددگار کی سہارے کی ضرورت بھی ہو گی، اس کیلئے اسے اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے سیدھا راستہ اختیار کرنا ہو گا تاکہ افغان جنگ کے بعد یہاں سے محفوظ طریقے سے باہر نکل سکے اور اس کا علاج سوائے پاکستان کے کسی اور کے پاس نہیں کیونکہ پاکستان ہی افغان جہاد میں افغانوں کا پُشتبان رہا اور روس کو نیچا دکھانے میں مددگار۔ آج بھی پاکستان افغان مسئلہ کا پُرامن حل چاہتا ہے اگر ایساف والے پاکستان میں ڈرون حملے بند کر کے اور افغانستان دشمن پالیسیاں چھوڑ کر کٹھ پتلی کرزئی حکومت کی بجائے افغان مسئلہ کے اصل فریقوں سے مذاکرات میں تو انہیں افغانستان سے بحفاظت واپسی کی راہ مل سکتی ہے ورنہ بقول غالب .... ع
”بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“
والی بات تو کل بھی درست تھی آج بھی ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
 کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے : میاں محمد منشا !
شاید دنیا میں ہم واحد ایسی قوم ہیں جو اپنے نفع و نقصان سے بے نیاز مست زندگی بسر کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، ملک کا حال اور مستقبل اس ڈیم کی تعمیر سے یوں جُڑا ہُوا ہے کہ اگر یہ ڈیم بنتا ہے تو ہر طرف خوشحالی و ترقی کی ریل پیل ہو گی اور اگر یہ نہ بنا تو پھر غربت، بھوک ننگ، افلاس رقص کرے گی، یعنی ....ع
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
آجکل ذرا ملک کا منظرنامہ اُٹھا کر دیکھ لیں بجلی اور پانی کی قلت نے ہماری عام زندگی ہی نہیں زراعت و صنعت تک کوبھی خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے مگر ہم ہیں کہ شُتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان بھی پانی و بجلی کی کمیابی سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں مگر چند زر خرید سیاستدان اس مسئلہ کو بلاجوازدبا رہے ہیں، اور عوام بھی مسائل کے اس جہنم میں جلنے کے باوجود خاموش ہیں شاید وہ اپنے ان داتاﺅں سے جو اصل میں ان کے بڑے دشمن ہیں ،خوفزدہ ہیں۔ اب میاں محمد منشا نے درست کہا ہے کہ اس مسئلہ کو ریفرنڈم سے حل کیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس آواز پر کان دھرے اور پہلے عوام میں اس ڈیم کے حوالے سے ایک بھرپور مہم چلائی جائے جو اس ڈیم کے ذریعے ملک کی خوشحالی کے دشمنوں کا بھانڈا پھوڑے اور اس کے بعد ریفرنڈم کرائے اور اس کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی تیاری کرے نوائے وقت ایسا ریفرنڈم کروا چکا ہے اب تو پاکستانی عوام اسکی افادیت کے قائل ہوچکے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭

ای پیپر دی نیشن