محسود کا مارا جانا بظاہر امریکی ”فتح“ پاکستان امریکہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں: واشنگٹن پوسٹ

محسود کا مارا جانا بظاہر امریکی ”فتح“ پاکستان امریکہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں: واشنگٹن پوسٹ

 واشنگٹن (اے این این/آن لائن) ”واشنگٹن پوسٹ“ نے دعویٰ کیاہے کہ طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسودکا ڈرون حملے میں مارا جانا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف نے اس حملے سے ایک روز قبل ہی کہا تھا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ اخبار کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت امریکی حکام کی نظر میں تو بہت بڑی فتح ہے کیونکہ وہ مشرقی افغانستان میں سی آئی اے کے مرکز پر حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے تاہم یہ حملہ عسکریت پسندوں سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات تباہ کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ اس حملے کی وجہ سے پاکستان کو طالبان سے مذاکرات کا اپنا منصوبہ معطل کرنا پڑ گیا ہے ۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اسے امن مذاکرات کے خلاف امریکی سازش قرار دیا۔ یہ حملہ وزیراعظم نواز شریف اور امریکی صدر بارک اوباما کے درمیان ملاقات کے صرف 8روز بعد ہوا جس میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کا عزم ظاہرکیا گیا تھا۔ عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنماﺅں نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے تو نیٹو سپلائی روٹ ہی بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران حکیم اللہ محسود امریکی ڈرونز کے خوف سے سرگرمیاں محدود رکھے ہوئے تھے۔ ان کا انحصار انتہائی قریبی ساتھی لطیف محسود پر تھا جسے امریکی فورسز نے افغانستان میں گرفتار کر لیا۔ اخبار نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے کہا کہ حکیم اللہ محسود کا مارا جانا عسکریت پسند گروپ کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ اس کا نائب امریکی حراست میں ہے اب اس مشکل کا سامنا ہے کہ اگر وہ مذاکرات سے دور رہتے ہیں تو ڈرون ان پر میزائل برساتا رہے گا۔ حکیم اللہ کی زندگی میں ہی پاکستانی طالبان دھڑے بندی کا شکار ہو رہے تھے اور اب مزید شیرازہ بکھرنے کا امکان ہے۔ ادھر برطانوی اخبارنے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کے فیصلے کے بعد خود کو محفوظ تصور کرنا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا باعث بنا‘ وہ مذاکراتی عمل سے قبل کہیں بھی 6 گھنٹے سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے‘ امریکی ڈرونز نے گاڑی کا نمبر چیک کرنے کے بعد میزائل داغے۔” ٹیلی گراف“کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لمبی زلفوں والے حکیم اللہ محسود گزشتہ کئی سال سے تمام ممکنہ پیشگی اقدامات کرتے رہے وہ کبھی کبھار کسی ایک مقام پر چھ گھنٹے سے زائد وقت تک ٹھہرتے لیکن جب حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ ہوا تو وہ پرسکون ہوگئے تھے۔ جمعے کے دن بھی وہ نماز کی ادائیگی کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق طالبان کے اجلاس میں شرکت کررہے تھے اور اس اجلاس کے بعد وہ مسجد سے نکل کر جیسے ہی گھر پہنچے تو ڈرون طیاروں نے حملہ کردیا۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب حکیم اللہ محسود اپنی گاڑی سے اترے ہی تھے امریکی جاسوس طیاروں نے گاڑی کے نمبر چیک کرنے کے بعد گائیڈڈ میزائل داغے۔
واشنگٹن پوسٹ

ای پیپر دی نیشن