اسلام آباد (صلاح الدین خان /نمائندہ نوائے وقت) سابق صدر پرویز مشرف کی ملک میں 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کو 7سال گزرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی، آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت دائرسنگین غداری کیس میں بلا ضمانت پورے پروٹو کو ل کے ساتھ آزادنہ گھوم رہے ہیں تاہم شدید دبائو کے باوجود ان کا نام ای اسی ایل سے نہ نکالا جاسکا، پیپلز پارٹی کے سابق دور میں انہیں گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا گیا، اس وقت کے سیکرٹری داخلہ شاہد خان کی ہدایت پر خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف شکائت درج کروائی گئی اور ایف آئی کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی، محمد خالد قریشی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں ڈائریکٹر ایف آئی اے مقصود الراحمن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے حسین اصغر پر مشتمل جے آئی ٹی ٹیم نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے 16نومبر 2013ء کو وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری مبارک علی کو پیش کی۔ خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس یاور علی خان اور جسٹس طاہرہ صفدر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے یکم جنوری 2014ء کو کی، پہلے اس کی سماعت نیشنل لائبریری میں ہوتی رہی جہاں فرد جرم عائد کرنے کے لئے ملزم پرویز مشرف بھی پیش ہوئے اب اس کی سماعت فیڈرل شریعت کورٹ میں خصوصی بنچ کررہا ہے،غداری کیس میں پہلے مشرف کی وکلاء ٹیم شریف الدین پیر زادہ ،انور منصور خان، ابراھیم ستی ،احمد رضاء قصوری وغیرہ پر مشتمل تھی جوتبدیل کردی گئی ہے اب ان کی ٹیم بیر سٹر فروغ نسیم ،شوکت حیات خان،فیصل چوہدری وغیرہ پر مشتمل ہے جبکہ استغاثہ کی ٹیم پراسیکیورٹراکرام شیخ ،طارق حسن وغیرہ 16وکلاء پرمشتمل ہے ،استغاثہ کی جانب سے اب تک 9گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرواچکے ہیں ان پر فریقین وکلاء کی جراح مکمل ہوچکی ہے،پرویز مشرف کی جانب سے دیگر فوجی اور سول افراد کو معاونت پرکیس میں شریک ملزم بناتے ہوئے شامل تفتیش کرنے کی درخواست کی گئی ہے جبکہ استغاثہ کا موقف ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ ،پی سی او ججز تقرری حلف،ججز کو گھروں میںنظر بند کرنا سمیت دیگر غیر قانونی اقدامات کے فرد واحد مشرف ذمہ دار ہیں، انہیں ایڈوائس دینے والے(پی ایم) کو ہی صرف شریک جرم کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے دیگر فوجی و سول افسران،پارلینٹرین سیمت 6سوافراد کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی جن سے جے آئی ٹی تفتیش کرچکی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کیلئے کوئی شواہد،ریکارڈ ،مواد نہیں مل سکا ہے،مذکورہ معاملے پر خصوصی عدالت 21نومبر کو اپنا فیصلہ سنائے گا۔