درس گاہِ کربلا اور پاکستانی سیاست

Nov 04, 2014

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

عاشورہ محرم ہر سال امت مسلمہ کو خانوادہ رسول کی ان بے مثال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جن کے نشان آج تک ریگزارِ کربلا اور ہماری تاریخ کے سینے پر پیوست ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان میں گذشتہ کئی عشروں سے جو سیاست ہو رہی ہے اس میں یزیدی ہوسِ اقتدار کارنگ نمایاں ہے۔ مگر بہت سے کردار جو حسینی سیاست کا دعویٰ کرتے ہیں وقت کی کڑی آزمائشوں کے معمولی جھٹکوں کے بعد وہ بھی اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ یزید صرف اسلئے ناپسندیدہ نہیں کہ وہ بدکردار اور بدقماش تھااور وہ شعائر اسلام کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا بلکہ اس کی بدبختی کا اصل سبب یہ تھا کہ اسنے اس گلستان آرزو کو پائمال کردیا جسے محبوب خدا اور انکے بعد ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ اس نے ان سنہرے اصول و نظریات کا مذاق اڑایا جن کی پرورش، غار حراءکی خلوتوں سے شروع ہوکر کفار مکہ کی ایزا رسانی، ہجرت مدینہ،بدرو حنین کے معرکوں فتح مکہ اور حجة الوداع کی جلوتوں تک آغوش نبوت میں ہوتی رہی۔ یزید نے ایثار صدیقی عدل فاروقی، امانت عثمانی اور دانش حیدری کے تاریخ ساز پیغمبرانہ تسلسل کو دراصل لپیٹ دیا۔ خلافت کے ثمر بار درخت کو جڑوں سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی اور اس کی جگہ اسی شہنشاہیت کا بیج بویا گیاجس کے چنگل سے چھڑانے کے لئے پیغمبران انسانیت نے کاوشیں فرمائی تھیں۔
آج بعض بے خبر لوگ معرکہ کربلا کو ”دو شہزادوں کی جنگ“ قرار دے کر یزیدکو امام حسینؓ کے برابر لا بٹھانے کی سعی لاحاصل میں مبتلاءہیں۔ یہ لوگ اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن زہر تو زہر ہے اسکا ایک قطرہ بھی ماحول کی بے برکتی اور تلخی کے لئے کافی ہے۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ کہاں آغوشِ نبوت محمدی کے انوار، سیدنا علی المرتضیٰ کے جلال اورخاتون جنت سیدہ کائنات فاطمةالزہراءکے وقار میں ڈھلا ہوا حسینی کردار اور کہاں انتقامی سیاست و عصبیت کی زہر آلود فضاﺅں میں ابھرنے والا یزیدی خمار۔ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک؟ مقابلہ کروانے والے بھی دراصل ازلی بدبخت ہیں اور ان کی رگوں میں بھی انہی خوارج کا خون دوڑ رہا ہے جنہوں نے تاجدار ولایت سیدنا علی المرتضیٰ کے ایمان پر شک کیا اور بالآخر شہید کردیا۔ ان لوگوں نے آج بھی کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اورقریہ عشق رسول، پاکستان کے پرامن شہریوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ گویا یزیدیت اور حسینیت کے درمیان آج بھی مختلف شکلوں میں معرکہ آرائی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل حق حسینیت کے ساتھ ہیں اور فتنہ پرور یزیدیت کو پروان چڑھانے میںمصروف ہیں۔
امام حسین کی سربراہی میں اہل بیت نبوی کے 72 معصوم افراد کی تاریخ سازقربانی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان عظیم المرتبت شہداءکے خون نے منافقت کے چہرے سے پردہ چاک کردیا۔ واقعہ کربلا سے قبل اسلام کی مدمقابل قوت کو صرف کفر سے تعبیر کیا جاتا تھالیکن اسوہ¿ شبیری نے اسلام کو نقصان پہنچانے والی دوسری بڑی قوت یعنی منافقت کو بھی طشت از بام کردیا۔ اس قربانی نے یہ بھی واضح کردیا کہ آئین حق اور اسوہ رسول کو دربار شاہی کی رعونت و تکبر کی بھینٹ چڑھانے والے بھی اسی منافقت میں لت پت ہیں چاہے ان کا تعلق بنو امیہ کے بادشاہوںکے ساتھ ہو یاآج کے مطلق العنان مسلمان حکمرانوں کے ساتھ۔
شہادت امام حسین یوں تو ہر دور کے مسلمانوں کے لئے مینارہ نور رہی ہے اور اہل حق اس سے عشق و ایمان کے اسباق حاصل کرتے آئے ہیں مگر آج پھر کافر اور منافق حقیقی اسلام کے خلاف یکجا ہوچکے ہیں۔ منافقت کفر کی آلہ کاربن کر خرمن اسلام کو نقصان پہچانے کے درپے ہے۔ صلیب و ہلال کی موجودہ معرکہ آرائی میں یہود وہنودکے باہمی اتحادکے شواہد ہمیں باہم متحد ہوجانے کے لئے کافی تھے لیکن امت اب بھی اسی منافقت کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہورہی ہے۔ عالم کفرکا سرغنہ انہی گماشتوں اورایجنٹوں کے ذریعے اسلام کو موثر سیاسی قوت بننے سے روک رہاہے۔ بیشتر مسلمان ممالک کے مطلق العنان حکمران ”بادشاہت“ کو قائم رکھنے کے لئے اسی عالمی استعمار کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس منظر نامے میں کئی طبقات منافقانہ کردار اداکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہادت امام حسین پر جلسے جلوس اورمحافل و مجالس منعقدکرنے والوں میں سے کتنے ہیں جو کردار حسین کو حقیقی معنوں میں اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے یزیدوں اور ابن زیادوں کو پہچان رہے ہیں؟ ہم دور کیوں جائیں وطن عزیز کی سیاسی، معاشی اور تعلیمی ابتری کے اسباب پر ہی غور کریں توقدم قدم پر وہی کردار نظر آئیں گے۔ ریاست مدینہ کے بعد اعلائے کلمة اللہ کی خاطرمعرض وجود میں آنے والی عظیم سلطنت پاکستان کو پہلے دو لخت کرنے والے اور اب اس کے وسائل لوٹ کر بیرون ملک اپنی تجوریاں بھرنے والے کیا یزیداور ابن زیاد سے کم ہیں؟ حریت و شہادت حسین کو اپنی پہچان سمجھنے والوں میں سے کتنے ہیں جو آج بھی ان ملت فروش سیاسی کرداروں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی جگہ کسی باکردار قیادت کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہی حال تمام اسلامی ممالک کا ہے۔ باطل طاغوتی قوتوں کے آلہ کار جگہ جگہ اقتدار پر براجمان ہیں اور ایسے براجمان ہیں کہ ان کی زندگی میں کسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر ان کے وزیرمشیر اور عوام کا لانعام ہیں کہ صبح و شام ان کے گرد محوِ طواف ہیں۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا۔
قافلہ¿ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
 سرزمین عرب جہاں بدرو حنین اور کربلا کے معرکے بپا ہوتے رہے آج وہاں جمہوریت و شورائیت کی بجائے بادشاہت براجمان ہے۔ جن مسلمان ممالک میں نام کی جمہوریت آئی ہے وہاں بھی روح خلافت مفقود ہے۔ اس لئے روح حسین آج بھی اہل اسلام کو حقیقی شورائیت وجمہوریت پر مبنی نظام ریاست کے قیام کی طرف بلارہی ہے۔ سرخ رو ریگ زار کربلا ان مشائخ علماءاور صاحبان جبہ و دستار کو بھی دعوت فکر دے رہی ہے جو دین مصطفوی کی نمائندگی اور اسوہ¿ حسینی کے وارث ہونے کے دعویدار ہیں۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنے قابل فخر اسلاف کی طرح دین محمدی کی حرمت پر جان و مال اورعزت وآبرو کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اسوہ مصطفوی ہویا اسوہ¿ شبیری یہاں اگر مگر اور پس و پیش نہیں بلکہ خلوص اور وفاداری کا عملی اظہار ہے۔ ہمارے علماءو مشائخ کی ترجیحات پر غور کیا جائے تو (الا ماشاءاللہ) دین کی خدمت کہیں تیسری یا چوتھی ترجیح ہوتی ہے پہلی ترجیح اپنی ذات کے لئے نمودو نمائش، حصول زر و زمین اور آرام و آسائش، دوسری ترجیح ان کے اہل خانہ اوران کی اولادیںہوتی ہیں جن کے لئے ان کی گدیاں (تقوی اور عملی استحقاق سے قطع نظر) ملکیت و وراثت کے طور پر ان کے سپرد ہوجاتی ہیں۔ ان گدی نشین حضرات کی نظران بزرگوں کے مزارات پر آنے جانے والے لوگوں کے جیبوں پر ہوتی ہے ان کے کردار اور فکر و عمل پر نہیں۔ یہی تو قبروں کی تجارت ہے جو روحِ تصوف اور پیغام شہادت امام حسین کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کا خانقاہی اور روحانی نظام بدنام ہوچکا ہے۔ حالانکہ یہی نظام تربیت ودعوت تھا جس نے سید علی ہجویری، معین الدین اجمیری، جلال الدین رومی، سید عبدالقادر جیلانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی، بہاﺅالدین زکریاملتانی، خواجہ نظام الدین محبوب الہٰی، خواجہ سلمان تونسوی اور ان جیسے ہزاروں رازداران الوہیت و رسالت کو جنم دیا۔ جن کی خدمات سے انکار چمکتے ہوئے سورج کی روشنی سے انکار کے مترادف ہے۔ عاشورہ محرم ہر سال ہمیں کردار و عمل اورایثار وقربانی کا پیغام دیتاہے۔ ہم اسے روائتی ماتم اور مجالس سوز منعقد کرکے گزار دیتے ہیں اور اگلے ہی دن یعنی 11محرم کو سب کچھ بحال ہوجاتا ہے اور ہم سب یزیدی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
قافلہ¿ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

مزیدخبریں