ابوظہبی (سپورٹس ڈیسک) قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے کامیابی پر بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے۔ فتح کا کریڈٹ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ایک ایک کھلاڑی نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور کھیل کے تمام شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یونس خان‘ اظہر علی‘ احمد شہزاد نے اچھی بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ سرفراز احمد نے وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ بلے بازی بھی خوب کی۔ سپنرز نے سعید اجمل کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔ ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ نے آسٹریلوی کھلاڑیوں کو جال میں پھنسائے رکھا اور ان کو جم کر نہیں کھیلنے دیا۔ اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوں جو سب کے سامنے ہے۔ ٹیم مینجمنٹ اور کوچز نے بھی سپورٹ کیا اور قوم کی دعا¶ں سے کامیابی ملی۔ کھیل کے تینوں شعبوں میں کارکردگی اچھی رہی۔ یہ کارکردگی نیوزی لینڈ کے خلاف بھی جاری رکھیں گے۔ کھلاڑیوں کے حوصلے بلند ہیں اور اس تسلسل کو برقرار رکھیں گے۔ با¶لنگ اٹیک نیا تھا مگر جس طرح کارکردگی دکھائی ہے اس سے ان کا تجربہ سامنے آتا ہے۔ ورلڈکپ سے قبل اچھی ٹیم تشکیل دیں گے اور قوم کی دعا¶ں سے کامیابی حاصل کریں گے۔ فاتح ٹیم کی قیادت کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ہر کھلاڑی فتح کیلئے پرعزم تھا۔ نوجوان کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی دکھا کر ٹیم میں مستقل جگہ بنا لی۔ قومی ٹیم کو اظہر علی‘ اسد شفیق‘ سرفراز احمد کی شکل میں مستقبل کے سٹار کھلاڑی مل گئے ہیں۔آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک نے کہا ہے کہ ہم نے بھارت سے شکست سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ بھارت نے ٹیسٹ سیریز چار صفر سے جیتی تھی اب پاکستان نے دو صفر سے زیر کیا ہے۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو سلو پچز پر کھیلنا سیکھنا ہو گا۔ آسٹریلیا نے ایشیا میں گذشتہ 15 میں سے صرف ایک ٹیسٹ میچ جیتا ہے۔ پاکستان نے ہمیں تینوں شعبوں میں آ¶ٹ کلاس کر دیا ہے۔ ہمارے کھلاڑی بیٹنگ‘ با¶لنگ اور فیلڈنگ میں اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ ذوالفقار بابر نے 14 وکٹیں حاصل کیں ہمارے کھلاڑیوں نے 11 کیچ ڈراپ کئے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ توقع تھی کہ بھارت سے شکست کے بعد کچھ سیکھیں گے مگر کچھ نہیں بدلا۔ ہماری منزل کوشش کرنا اور بہتری لانا ہے۔ بار بار کہتا رہا مگر کارکردگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ آئندہ بھی برصغیر میں کھیلتے ہوئے تیاری کرنا ہو گی۔ ہمارے کھلاڑی گھر جانے کیلئے خوش ہوں گے کیونکہ وہاں پھر وہ معمول کی پچز پر کھیلنا شروع کر دیں گے۔ اچھی ٹیم ہمیشہ گھر سے باہر بھی فتح حاصل کرتی ہے‘ شکست کا مطلب ہے کہ ہمیں کچھ کر دکھانا ہو گا تاکہ تسلسل لا سکیں۔ ہم اپنی پچز پر کھیل کر خوش ہوتے ہیں‘ دوسرے ممالک کی پچز پر بھی کھیلنا سیکھنا ہو گا۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کےخلاف ناکامی کی بڑی وجہ با¶لرز کا بھی ناکام ہونا ہے۔ جو وقت پر وکٹیں حاصل نہیں کر سکے بلے بازوں نے رنز نہیں بنائے۔ حریف ٹیم کے سپنرز نے ہمیں آسانی سے ڈھیر کر دیا۔ ہمارے سپنرز ان کے مقابلے میں ناکام رہے۔ میں کسی بھی شعبہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ مگر سیریز میں بلے بازی بالکل کمزور تھی‘ میں بذا خود ناکام رہا کپتان کی حیثیت سے میری بلے باز ناقابل قبول ہے۔ پاکستان نے ہمیں تینوں شعبوں بلے بازی‘ با¶لنگ اور فیلڈنگ میں آ¶ٹ کلاس کر دیا۔ مجھے خود پر بھی غصہ ہے۔ اپنی کارکردگی سے مایوسی ہوئی۔ میں خود کو مثال بنا کر پیش کرتا ہوں مگر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ میرے پاس معذرت کا کوئی راستہ ہیں‘ دوسرے کھلاڑیوں کی طرح مجھے خود اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ سیریز دو صفر سے ہارنے پر بہت مایوس ہوں۔ کپتان کی حیثیت سے تمام ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔