الطاف کی تقاریر پر پابندی، حکومت ہائیکورٹ کے فیصلے کی حامی ہے: ایڈیشل اٹارنی جنرل

Nov 04, 2015

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی کے حوالے سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے معاملہ ہائیکورٹ کو بھجوا دیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم عبوری نہیں بلکہ ایک آزاد آرڈر تھا اور لاہور ہائیکورٹ نے اس مقدمہ میں حتمی فیصلہ نہیں دیا اور جو بات الطاف کی طرف سے یہاں کی جا رہی ہے وہ ہائی کورٹ میں بھی کر سکتے ہیں۔ حکومت ہائیکورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بہت الارمنگ حالات ہیں کچھ لوگ میڈیا پر آ کر وکلاء کو کھری کھری سنا دیتے ہیں یہاں تک کہ قائداعظم کی تصویر جلا دی اور ایک چینل نے اسے بھی نشر کر دیا۔ عدالت ایسی آزاد تقاریر کی اجازت نہیں دے سکتی اگر کسی نے ریاست کے خلاف بات کی ہے تو حکومت اس کو روکے، حکومت کو ریاست کے خلاف تقاریر کو روکنے سے کس نے روکا ہے۔ تاہم کسی کو اپنا درست موقف پیش کرنے سے روکنا درست نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اس نکتہ پر کوئی تنازعہ نہیں کہ الطاف حسین کی تقاریر ملکی سلامتی کے خلاف تھیں تاہم ہم ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے 7 ستمبر 2015ء کو الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی لگائی اور اس ضمن میں جاری حکم امتناعی میں 15 روز گزرنے کے بعد توسیع نہیں کی گئی جہاں تک اس حکم امتناعی کا تعلق ہے ہائیکورٹ کو اس ضمن میں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کو بھجوا دیتے ہیں کیونکہ اس مرحلہ پر سپریم کورٹ کوئی بات نہیں کر سکتی۔ عدالت نے الطاف حسین کے وکلاء کو حکم دیا کہ ان کے موکل حکم امتناعی کے معاملے میں بھی ہائیکورٹ سے رجوع کریں اور اس معاملہ میں فیصلہ حاصل کریں۔ میڈیا سے گفتگو میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس مقدمے کو بغاوت کا مقدمہ قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت کمیٹیاں بناتی پھرتی ہے اگر یہ بغاوت کا مقدمہ ہے تو پھر وفاقی حکومت کو اس حوالے سے کارروائی کرنی چاہئے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہماری نظر میں سات ستمبر کو جاری کیا گیا حکم عبوری تھا جس کی توسیع نہیں کی گئی اس لئے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی درخواستیں نمٹا رہے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ سات ستمبر کے فیصلے کی تشریح خود کرے۔

مزیدخبریں