چترال+ مانسہرہ+ سوات (نیوز ایجنسیاں+ بی بی سی ڈاٹ کام) چترال میں شدید بارش اور برفباری نے راستوں کو بند کر دیا، کئی گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔ بچوں اور خواتین کو ٹھٹھرتی سردی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ نے بارش اور برفباری کے بعد سیاحتی مقام ناران اور کاغان میں سیاحوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ضلع دیامر کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ جاری ہے۔ چترال شہر اور گردونواح میں بارش کے بعد نشیبی علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ موسم کی تبدیلی سے لوگوں کو انتہائی پریشانی کا سامنا ہے۔ زلزلے میں بے گھر ہونے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور درجنوں خاندان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لواری ٹنل پر شدید برف باری سے کئی گاڑیاں پھنس گئیں اور گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں جس کی وجہ سے یخ بستہ ہوائوں میں کھڑے مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ مسافروں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مانسہرہ اور اس کے گردونواح میں بارش کے بعد سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا، ناران اور کاغان میں برفباری کے بعد ضلعی انتظامیہ نے سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے پہاڑی علاقوں میں منگل کی صبح سے برفباری کا سلسلہ دن بھر وقفے وقفے سے جاری رہا۔ بی بی سی کے مطابق خیبر پی کے ضلع دیر اپر میں زلزلے سے تباہ ہونے والے مکانات کی دوبارہ تعمیر میں ایک مرتبہ پھر عمارتیں بنانے کے ضوابط کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ متعلقہ محکمے اور متاثرین گھروں کی تعمیر پْرانے انداز میں کر رہے ہیں یعنی تعمیر بنیادوں اور مٹی گارے کے بغیر ہی کی جا رہی ہے۔ دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ واقع ضلع دیر بالا کے ایک طرف تو دریا ہی ہے اور دوسری جانب پہاڑوں پر آبادی ہے۔ جب زلزلہ آیا تو اِس گنجان آباد علاقے میں کافی تباہی پھیلی۔ کئی مکانات تو ایک دوسرے پر آگرے۔ اب تک لگائے جانے والے تخمینے کے مطابق یہاں مکمل طور پر تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد 1200 ہے جبکہ 2500 کو جزوی نقصان پہنچا ہے لیکن دیر بالا کے ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفسر ذکاء اللہ آفریدی کے مطابق یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ جن مکانات کو زلزلے سے جزوی طور پر یا پھر مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے اْن کے مالکان دوبارہ اْنہیں بالکل اْسی انداز میں بنا رہے ہیں جس طرح وہ پہلے بنائے گئے تھے یعنی پہاڑی پتھروں کے اوپر بنیادوں اور بغیر مٹی گارے کے۔ عوام اِس طرزِ تعمیر کو زلزلے کے باوجود اپنے وسائل کی کمی قرار دیتے ہیں۔ ضلع دیر بالا کے رہائشی لائق زادہ اپنے تباہ ہوجانے والے گھروں کو دوبارہ پتھروں کے اوپر تعمیر کر رہے ہیں اور اِس میں سریہ یا مٹی گارے کا کوئی استعمال نہیں کیا گیا۔ ضلعی رابطہ کار افسر ذکاء اللہ خان کے مطابق صوبہ خیبر پی کے کے ضلع دیر میں اب تک ایسی کوئی حکمتِ عملی طے نہیں کی گئی بلکہ یہاں اب کئی گھر پہلے کی طرز پر تعمیر بھی کئے جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ روز بھی سوات، مالاکنڈ اور گردونواح میں 4.2 شدت زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا اور وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی گہرائی دس کلو میٹر اور مرکز پاک افغان سرحدی علاقہ تھا۔ زلزلہ سے کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تاہم لوگ خوفزدہ ہوکر عمارتوں سے باہر نکل آئے۔ پشاورسے بیورورپورٹ کے مطابق26اکتوبر کو آنے والے ہولناک زلزلہ کے باعث خیبر پی کے میںاب تک 226اموات کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے 193متاثرہ خاندانوں کو معاوضوں کی ادائیگی ہوچکی ہے اسی طرح زلزلے کے نتیجہ میں مجموعی طور پر زخمی ہونے والے 1635افراد میں 115زخمیوں کو معاوضوں کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ خیبر پی کے (پی ڈی ایم اے)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق زلزلے سے42722 مکانوں کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے398 تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو معاوضوں کی ادائیگی کر دی گئی ہے اسی طرح زلزلے سے495 سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔