اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ آن لائن+ بی بی سی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ہم آئین پاکستان کے تناظر میں ایک جدید اور روشن خیال پاکستان کے قیام کے لیے ان تمام ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ مفادِ عامہ کے تحفظ کے لئے، پاکستان میں قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کی خاطر، ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دے تاکہ اس عزم کی تکمیل ہوسکے جس کا نام پاکستان ہے۔ اپنی ہئیت کے اعتبار سے تمام ریاستی قوت اور اختیارات اس حتمی اور اخلاقی عقیدے کے تحت مقرر کردہ حدود میں منظم اور منقسم ہے کہ ’’حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ جل شانہٗ‘‘ کے پاس ہے اور سیاسی اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمار ے آئینی ڈھانچے میں، اختیارات کو وسیع پیمانے پر معاشرے میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے پاکستان کے عوام ہی ان اختیارات کی قوتِ نافذہ کا جواز اور منبع ہیں۔ ریاست جمہور کی منشاء پر قائم ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ تفویض، اس امر کی جانب پہلا اشارہ ہے کہ منتخب نمائندے اور درحقیقت ریاست کا تمام ڈھانچہ ہی پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہے۔ چونکہ سماج ہی ریاست کے تمام عناصر اور کارندوں کو وجود کا جواز بخشتا ہے، اس لیے لازم ہے کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق خدمات انجام دیں تاکہ عوام اور ریاست کے مابین فاصلے محدود ہو سکیں۔ وہ سینٹ میں پورے ایوان کی کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا عوام کی توقعات اور تقاضے ہی دراصل ہماری کارکردگی کو جانچنے کے پیمانے ہیں ہم سب کسی فرد کے نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں، قانون کی بالادستی کیلئے قومی سوچ کی ضرورت ہے، ملک کا مستقبل عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی ہے، ہمیں قوانین پر عمل درآمد کے سلسلے میں بحران کا سامنا ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے، ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہئے، اب تک نہ تو موثر نظم و نسق کے معیار طے ہوسکے ہیں اور نہ ہی بدانتظامی کے خاتمے کے لیے کوئی قومی لائحہ عمل مرتب کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے عوام کے حقوق کی شب و روز نفی ہورہی ہے، آئین کے آرٹیکل 10اے اور انفارمیشن کمیشنز کے قیام کے باوجود شفافیت کے معیارات موجود نہیں، اس کی وجہ سے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی بدعنوانی اور جرم بلا روک و ٹوک جاری ہیں، ان امور سے نبرد آزما ہونے کے لیے محض عدلیہ کی جانب سے ہی نگرانی اور جائزہ کافی نہیں، بنیادی طور پر یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے نگرانی کے نظام، نمائندہ حیثیت، قانون سازی اور بجٹ سازی کی صلاحیت کو استعمال کرے تاکہ نظامِ انصاف کے معیار اور رسائی کو جائزے، سرمایہ کاری اور ندرت کے ذریعے بہتر بنایا جا سکے، یہ پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عدالتی نظام کی معاونت سے جو آزاد ہو اور اپنے جائزے، توضیح اور نتائج اخذ کرنے میں مقصدیت پر عمل پیرا ہو، ایسے اقدامات اٹھائے جن سے قانون اور انصاف کی خدمات کا معیار بلند ہو تاکہ آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جا سکے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ یہ امر ان کے لیے باعث مسرت اور افتخار ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر سینٹ کے معزز ایوان سے مخاطب ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آئین کے آرٹیکل37 کی روشنی میں، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مفصل سفارشات پیش کر چکا ہے۔ ہماری کاوشیں نتیجہ خیز ہونی چاہئیں یعنی ہم اپنے اقدامات کے اثرات اور نتائج پر نظر رکھتے ہوں۔ اس کے لیے حکومت اور پارلیمنٹ کو نظام کے نقائص دور کرنے کے لیے زیادہ سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا۔ ایک غیرمنصفانہ ریاست اور معاشرہ غیر مستحکم اور ناپائیدار ہوتا ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ قانون سازوں اور قوانین کا مسودہ لکھنے والوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے تیار کردہ قوانین بنیادی حقوق سے ہم آہنگ ہوں۔ برابری اور مساوات اس منصفانہ معاشرے کے قیام کا اہم جزو ہے۔ بنیادی طور پر ’’پاکستان کے عوام‘‘ ہی ریاستِ پاکستان کے ضامن اور اس سے مستفید ہونے والے ہیں جو اس عزم پر کاربند ہیں کہ اپنے قومی اور سیاسی اتحاد اور یکجہتی کا تحفظ کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی اسی تمہید میں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’عدلیہ کی آزادی کو کْلی طور پر محفوظ رکھا جائے گا‘‘ تاکہ ’’مکمل انصاف‘‘ کیا جا سکے۔ ہمارا آئین منصفانہ ریاست کے قیام کا ہدف پورا کرتا ہے، میری نظر میں، یہ ایک روشن خیال، عملیت پسند اور جامع مینڈیٹ ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے اور جس کا ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم اس مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور ہمیں فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قانون کی بالادستی کو روزمرہ زندگی، ریاستی امور کی انجام دہی، سماجی نظم کے فروغ اور عوام کے آپس کے معاملات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس اپنی کارکردگی کی جانچ اور تجزیئے کا کوئی نظام نہیں۔ ہمارے پاس کوئی نظام نہیں جو بتا سکے کہ انصاف سے وابستہ امیدیں کیا ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوانین پر عمل درآمد انتظامیہ کی اوّلین ذمے داری ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاست کا تشکیل کردہ نظام انصاف، سماج میں جنم لینے والے تمام تنازعات کا صرف 20 فیصد حصہ ہی نمٹاتا ہے جبکہ بقایا 80 فیصد تنازعات کا تصفیہ جرگہ اور پنچایت جیسے غیر منظم اور بے ضابطہ ذرائع سے ہورہا ہے۔ اپنے بیشتر شہریوں کی انصاف کی ضرورتوںکی تشفی کرنے میں ریاست کی ناکامی، ریاستی اداروں کے وجود کے جواز پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے، جو خود ریاست کی عمل داری کو کمزور کرتی ہے، جس کا نتیجہ امن و امان کی خراب صورت حال، نظم و نسق کی کمزوری یا ریاستی گرفت سے بعض علاقوں کی دوری اور عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ یہ پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عدالتی نظام کی معاونت سے جو آزاد ہو اور اپنے جائزے، توضیح اور نتائج اخذ کرنے میں مقصدیت پرعمل پیرا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس معزز ایوان سے خطاب کے لیے مدعو کرنے پر ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ اْنہوں نے کہا کہ ایسے عمدہ قوانین کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس پر عمل درآمد کروانے والے ادارے غیر موثر ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی حاضر سروس چیف جسٹس نے سینٹ سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اداروں کی ناکامی کی وجوہات میں انتظامی اور تکنیکی مہارت کے فقدان کے ساتھ ساتھ اختیارات کا ناجائز استعمال اور بدعنوانی بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عام تاثر یہی ہے کہ قانون پر عمل درآمد کروانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن جہاں پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور عدم مساوات ہو اور نظم و نسق کمزور ہو تو وہاں پر عدالت کو انتظامی امور میں بھی مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بدعنوانی اور جرم پر استوار موجودہ کلچر، لاقانونیت اور قانون سے ماورائیت کو فروغ دے رہا ہے ریاست کے استحکام کے علاوہ ریاستی اداروں پر اعتماد اور ان کے وجود کے جواز اور سب سے بڑھ کر پورے سماجی نظام کے لیے شدید خطرات پیدا کررہا ہے، ہمارے آئین میںریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا بہترین توازن قائم کیا گیا ہے جس کا خیال رکھنا تمام اداروں پر لازم ہے۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، اداروں کے مابین بات چیت سے جمہوریت کو تقویت ملے گی اور قوم ترقی کی جانب سفر کریگی، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی رہنمائی سفارشات میں کلیدی کردار ادا کریگی، آئین پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے، مختلف تشریح نہیں ہونی چاہئے، مفادات کو آگے بڑھانے کی روش کو روکنا ہو گا تبھی انصاف پر مبنی معاشرہ تکمیل پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے پارلیمان کو عزت دی۔ چیئرمین نے کہا کہ پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی ایک نیا تصور ہے۔ سینٹ کے قواعد میں ترمیم کرکے قومی اہمیت کے معاملات پر پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنانے کی ترمیم منظور کی گئی۔ چیف جسٹس کے خطاب کے بعد چیئرمین نے رہنمائی کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ چیف جسٹس نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے کمیٹی کو بہت رہنمائی ملے گی۔ سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا چیف جسٹس کے ارشادات سفارشات کی تیاری میں معاون ثابت ہونگے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے چیف جسٹس آف پاکستان کے سینٹ ہائوس کمیٹی سے خطاب پر ایک بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے سینٹ میں فوری اور سستے انصاف پر گفتگو کرنا سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قوانین پر عملدرآمد ناقص اور نظم و نسق کمزور ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ پارلیمنٹ ایسے اقدامات کرے جن سے قانون اور انصاف کا معیار بلند ہو۔