میرے خیال میں ٹیلی ویژن ایک ہی ہے پاکستان ٹیلی ویژن۔ ٹی وی چینلز تو آجکل زوروں پر ہیں۔ میں جب پی ٹی وی پر باقاعدہ پروگرام کرتا تھا تو کوئی پرائیویٹ ٹی وی چینل نہ تھا۔ سب لوگ پی ٹی وی دیکھتے تھے۔ لوگ معروف ہوئے اور محبوب بھی ہوئے۔ وہ لوگ جو کبھی کبھی کسی پروگرام میں شریک ہوتے تھے انہیں بھی معاوضہ ملتا تھا۔ بہت کم ہوتا تھا مگر کچھ نہ کچھ تھا، اب بھی ہے۔ ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر میں چکرا گئے ہیں۔ یہ مقابلہ کئی روایتوں کو متنازعہ کر گیا ہے۔ پروگرام کے شرکاء کو کچھ نہیں ملتا۔
ٹی وی چینلز میں معاوضے بہت ہیں۔ اینکر پرسن کی عیش ہو گئی ہے مگر چھوٹے ملازمین کو ادائیگی آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔ پی ٹی وی چونکہ ایک سرکاری ادارہ ہے اس لئے تنخواہوں کی ادائیگی میں ایک باقاعدگی ہے۔ جو پی ٹی وی سے ریٹائر ہوتے تھے ان کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ پی ٹی وی کے ریٹائرڈ آدمیوں کی بھی بہت عزت اور ساکھ تھی۔ ان کے بڑھاپے کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اب تو یہ بھی ہے کہ پی ٹی وی سے ریٹائر ہوئے اور کسی ٹی وی چینل سے وابستہ ہو گئے۔ جنہیں دوسری ملازمت نہیں ملتی وہ صرف پی ٹی وی کی طرف سے اپنے واجبات اور پنشن پر گزارا کرتے ہیں۔
میں پریشان ہوا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے کچھ ریٹائرڈ ملازمین مجھے ملنے آئے۔ ان میں سے تقریباً سب میرے دوست اور واقف تھے۔ انہوں نے اپنی دردناک کہانی بتائی تو میں دم بخود رہ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے پی ٹی وی انتظامیہ ہمیں اپنے جائز حقوق سے محروم کر رہی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری اپنی تنخواہ میں سے جمع شدہ رقم (Commutation) ادا نہیں کی جا رہی ہے جو ہمارے بڑھاپے کا واحد سہارا ہے بلکہ بڑھاپے کی امانت ہے جس میں خیانت کی جا رہی ہے۔ اس رقم کو کسی کاروبار میں لگا کر مناسب اور جائز فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ 2013ء سے 2015ء تک ریٹائر ہونے والے اپنی جائز رقم کے حصول کیلئے ابھی تک دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ یہ رقم منافع کے ساتھ فوری طور پر ادا کرے۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ چار برسوں سے پنشن میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا۔ انتظامیہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں تو ہر سال اضافہ کرتی ہے لیکن ریٹائر لوگوں کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قلیل پنشن میں 2012ء کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس طرح ان دوستوں کی مشکلات میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کرتی ہے تو پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ملازمین کا کیا قصور ہے؟
میں نے وزیر اطلاعات پرویز رشید سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ وزیر قانون بھی ہیں۔ کبھی وہ پی ٹی وی کے سربراہ تھے۔ ان کے عہد میں پی ٹی وی کیلئے میرے پروگرام بند ہو گئے ہیں، اس کیلئے میں نے کچھ محسوس نہیں کیا کہ وہ میرے شاگرد بھی ہیں، یہ اطلاع کئی بار ان کی طرف سے مجھے ملی ہے۔ میری گزارش ہے کہ اپنے ریٹائرڈ ملازمین کے بڑھاپے کا کچھ خیال رکھیں۔ اس گھمبیر معاملے میں ذاتی دلچسپی لیں۔ اس حوالے سے پی ٹی وی کے سربراہ محمد مالک ہماری برادری کے آدمی ہیں۔ اس ضمن میں وہ بہت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے لئے مجھے تو یہ بھی افسوس ہے کہ ہم ایک اچھے اینکر پرسن سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ پی ٹی وی پر بھی کوئی پروگرام کر سکتے ہیں۔ پی ٹی وی پر کمپیئر ہوا کرتے تھے جو اینکر پرسن سے بدرجہا بہتر تھے۔ محمد مالک ان کے امتزاج سے اپنے پروگرام کا مزاج بنا سکتے ہیں۔ ہلکا پھلکا پروگرام جو دانشور انگریزی اور پنجابی زبان پر عبور رکھنے والا دلدار پرویز بھٹی ناظرین میں بہت مقبول تھا۔ ایسا کوئی پروگرام پھر نہ ہو سکا۔ ٹی وی چینلز پر پھکڑپن کا راج ہے، جگت بازی اور ایک دوسرے کی توہین کو مزاح کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی وی کے ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل کے حل کیلئے توجہ کی جائے۔
میں نے بہت پہلے روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ریٹائرڈ لوگوں کی بے بسی اور بے چارگی پر کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’روزنامہ ’امروز‘ کے مظلوم ملازموں کے آنسوئوں کا گروپ کیا ہے‘‘؟ آنسو اب خون سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں! یہ بے آسرا لوگ میاں محمد الیاس کی قیادت میں ایک بار پھر میرے پاس آئے ہیں۔ ’امروز‘ سرکاری اخبار تھا۔ سرکاری اخبار ہوتے ہوئے بہت مقبول تھا۔ نامور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی بھی امروز کے ایڈیٹر رہے تھے۔ ’امروز‘ بند ہو گیا۔ ہم نے اس کیلئے بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ اب امروز کے بھوکے ریٹائرڈ لوگوں کیلئے یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر کچھ نہیں ہوا تھا۔ اب بھی کچھ نہیں ہو گا مگر ہم تو کالم لکھتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کالم اب ظالم کے خلاف صرف ایک احتجاجی تحریر بن چکا ہے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ بھی سرکاری اخبار بنا دیئے گئے۔ ان کی مقبولیت بھی اس کے بعد کم ہو گئی اور آخرکار یہ اخبار بھی بند ہو گئے۔ سرکار دربار کا اخبار لوگ پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ اب حکومتیں اشتہارات کے ذریعے اخبارات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ریٹائرڈ اکثر لوگ مر کھپ گئے ہیں، چند ایک جو بچ گئے ہیں وہ شرمناک موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان ’’صحافیوں‘‘ کی خواتین لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں، ان کے بچے پوتے گلیوں میں ٹافیاں بیچتے ہیں۔ وہ خود کبھی ٹافی نہیں کھاتے۔ اشاروں پر رکنے والی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہیں مگر کبھی گاڑی میں بیٹھنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ ’’مشرق‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے لوگوں کو گولڈن شیک ہینڈ دیدیا گیا تھا مگر ’’امروز‘‘ کے لوگ محروم رہے۔ ان کے ساتھ بھی یہ مہربانی کر دی جاتی تو وہ کوئی معقول انتظام کر سکتے تھے۔ لیبر کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں ہے مگر اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ روزنامہ ’’امروز‘‘ کے لوگ بھیک نہیں مانگتے اپنا حق مانگتے ہیں۔ ان کے معاملے میں ہمدردی کا سلوک کیا جائے۔ ’’امروز‘‘ کی حیثیت چونکہ سرکاری ہو گئی تھی، یہ اخبار بند ہو گیا تھا، جن لوگوں کو کسی اور اخبار میں جگہ نہیں ملی تو وہ اب کیا کریں؟ یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان کی طرف سے حکام سے گزارش کر رہے ہیں۔