ناکام تحریک انصاف : ایک برُی خبر

مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کیلئے یہ خوشی منانے کا وقت نہیں کہ تحریک انصاف کو شکست ہو گئی بلکہ یہ جمہوریت اور پاکستان کیلئے بُری خبر ہے۔ کیونکہ پاکستان کے عوام نے ایک ایسی جماعت تحریک انصاف سے توقعات قائم کر لی تھیں جو انہیں مسائل سے نکال کر خوشحالی کی نوید سنائے، ماضی میں سیاستدانوں کے ہاتھوں عوام کا جو حال ہوا اس کیلئے عوام کوئی مسیحا ڈھونڈ رہے تھے، اسی لیے ’’سونامی‘‘ کی آہٹ نے عوام کے اندر نیا پاکستان بنانے کی امید پیدا کر دی تھی، لیکن ازحد افسوس یہ جماعت اپنے اندرونی مسائل اور سازشوں کا شکار ہوگئی اور ’’سونامی‘‘ کا جو شور و غوغا سنا گیا تھا اسکی لہریں بہت نیچی دکھائی دیں۔ اسکی وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ تحریک انصاف کے عہدیداران کیلئے فکر کی بات ہے کہ وہ پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ تخت لاہور پر قبضہ نہ ملنے کی وجہ سے شفقت محمود نے تو پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیکر ایک مثال قائم کر دی ہے کہ شکست تسلیم کرنے سے کسی کا قد چھوٹا نہیں ہو جاتا۔۔
جبکہ بقیہ عہدیداران بھی اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرنے یا ناکامی کی رپورٹس تیار کرنے جیسے کام کر رہے ہیں کیونکہ ان بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی جانب سے وہ گہما گہمی اور رونق دیکھنے میں نہیں آئی جو حلقہ 122کے ضمنی انتخابات میں علیم خان کی مرہون منت دیکھنے میں آئی تھی۔ میری نظر میں تحریک انصاف کی ناکام کے اصل ذمہ دار خود عمران خان ہیں انکی پہلی خامی کہ انہوں نے پرانے کارکنوں سے منہ موڑ لیا ہے۔
میں عمران خان کو ذمہ دار اس لیے ٹھہرا رہا ہوں کیونکہ مجھے 1995ء کی عمران خان کی وہ تقریر یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں کوئی سیاستدان نہیں جو آپ مجھے اس قدر پذیرائی دیں اور مجھے سیاست میں آنے کا کوئی شوق بھی نہیں، میں کبھی اس میدان میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرے نزدیک سیاست سے بڑا گند دنیا میں کوئی نہیں‘‘۔ اسکے فوری بعد وہ میدان سیاست میں آئے لیکن لوگوں نے انکی پہلی غلطی سمجھ کر انہیں معاف کردیا، پھر حالیہ سالوں میں کپتان نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کیخلاف بڑے زور شور سے کارروائی کرنے کی بڑھک بھی ماری تھی مگر یہ معاملہ بھی سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔ پھر دھرنا سیاست ہوئی وہاں بھی کئی انکشافات نے عمران خان کو خاصا ایکسپوز کر دیا۔۔۔ ان ساری ٹامک ٹوئیوں سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عمران خان سیاست کے نصاب سے کماحقہ‘ ناواقف ہیں اور قدم بہ قدم اپنے ہی اعلانات و بیانات کی نفی کرنے پر آمادہ رہتے ہیں‘ ہو سکتا ہے انکی نیت میں فتور نہ ہو اور وہ ایماندار بھی ہونگے مگر حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ انکے مزاج میں ٹھہراؤ نام کی کوئی چیز نہیں‘ انھوں نے جو خوشنما خواب نوجوان نسل کو دکھائے تھے وہ ایک دیوانے کی بڑ بن کر رہ گئے ہیں۔ انکا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو درست اور باقی سب کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی عائد ہوتا رہتا ہے کہ وہ لوگوں کی عزت نہیں کرتے، انہوں نے خود غرض لوگوں کا ایک ٹولہ اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تحریک انصاف اندرونی طور پر زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ کارکنان عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان میں پارٹی عہدوں کیلئے ایک نہ ختم ہونیوالی جنگ چھڑ چکی ہے۔ پارٹی کے معماروں کو یہ گلہ ہے کہ انکی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے اور ایسے افراد کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے جنہیں پارٹی جوائن کیے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں۔ حامد خان اور جسٹس وجیہہ الدین کی پریس کانفرنسوں نے پارٹی کی اندرونی تصویر مکمل طور پر عیاں کر دی ہے‘ وہ جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک اور اسی طرح کے چند اور لوگوں کو پارٹی کیلئے ضرررساں قرار دیتے ہیں۔ پارٹی میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں‘ جس یوتھ نے انکی پارٹی کی بنیادوں کو مضبوط کرنا تھا‘ انکی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جسکا غیر معمولی نقصان یہ ہوا کہ اس یوتھ نے سب سے پہلے صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکرز صاحبان پر گالیوں کی بھرمار کر دی۔
2013ء کے انتخابات سے اب تک کی صورتحال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے بہت کچھ کھویا ہے‘ ایک مضبوط اپوزیشن بننے کے بجائے دھاندلی کے واویلے پر اسمبلیوں کا بائیکاٹ اور بدترین دھرنوں پر اُتر آنے کی پالیسی کسی بھی زاویے سے دانشمندانہ نہیں تھی‘ گزشتہ سال خیبرپختونخوا حکومت پوری حکومتی مشینری اور کارکنان سمیت دھرنوں میں بیٹھی رہی اور صوبے کا سارا نظام معطل رہا جسکے باعث وہاں کے لوگ سیلابوں اور دھماکوں میں بے یارومددگار آہ و بکا کرتے رہے‘ پرویز خٹک کی حکومت کا جو مالی و معاشی نقصان ہوا وہ اس سے الگ ہے۔ اسکی مثال بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتی‘ بجلی کے بِِل جلانے اور لوگوں کو سرکاری اداروں کیخلاف بغاوت پر اکسانے کا پی ٹی آئی کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوا کیونکہ پی ٹی آئی کے اپنے کارکنوں نے ہی سول نافرمانی تحریک کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔
دیکھا جائے تو انتخابات سے لے کر تا وقتِ حال پی ٹی آئی نے خود کو نقصان پہنچا کر نواز حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ انتخابات کے بعد مشرف کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے نواز حکومت سخت بے چینی کا شکار تھی، وفاقی وزراء اور مشیران آپس میں دست و گریباں تھے۔
ابھی بھی اگر عمران خان ہوش کے ناخن لیں اور پارٹی کی تنظیم نو کریں اور پنجاب و سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے دیگر مرحلوں میں مکمل تیاری کے ساتھ اپنے کارکنوں کو متحرک کریں تو پنجاب و سندھ کے کئی ضلعوں میں اپنے مئیر بنا سکتے ہیں جو انہیں 2018ء کے الیکشن میں مدد دینگے ویسے بھی عمران خان اب یہ خود کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کا سال 2015ء نہیں 2018ء ہی ہوگا۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی سیاست میں کوئی سال بھی الیکشن کا سال ہوسکتا ہے لیکن برسوں سے 2015 کو الیکشن کا سال کہنے کے بعد اچانک 2018 کو ہی الیکشن کا سال ماننے سے کپتان صاحب کی جو بھداڑ رہی ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں، سب نے دیکھا کہ حلقہ لاہور میں پی پی 147 میں شعیب صدیقی کی جیت خود عمران خان کے لاہور میں ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے، لوگ انہیں پسند کرتے ہیں تو عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کی توقعات پر پورا اتر کر سنجیدگی سے سیاست کریں اور کیونکہ سیاست ہی عوامی خدمت کا دوسرا نام ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا تحریک انصاف 2018 کے الیکشن کی فیورٹ پارٹی بن سکتی ہے لیکن اس کیلئے عمران کو پہلے پارٹی کے اندر کے خلفشار پر قابو پانا پڑیگا اور پرانی پالیسیوں سے نجات کے ساتھ ساتھ نئے پاکستان کے مبہم نعرے کے بجائے ایک واضح ایجنڈے کے ذریعے عوام میں آنا ہوگا اور اس ممکنہ ایجنڈے کا پہلا مرحلہ اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہونا چاہیے،اسکے بغیر کی جانیوالی سیاست ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی۔۔۔

ای پیپر دی نیشن