علامہ اقبال کا نظریہ حیات

علامہ اقبال کے افکار کا مرکزی نقطہ خودی ہے جسے ان کا فلسفہ حیات کہنا چاہیے۔ لفظ خودی فارسی اور اردو ادب میں عموماً غرور، تکبر اور خود خواہی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ علامہ اقبال نے اسے احساس نفس یا تعیین ذات کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ خودی کو انا اور جو ہر نور سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ اقبال کے نزدیک انسانی خودی کا وجود حقیقت مطلق سے ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس کا اثبات و استحکام منفی قوتوں کے خلاف تصادم اور پیکار کا مقتضی ہے تاکہ باطل پر حق کا غلبہ ہو اور دنیا سے فتنہ ، فساد، جہالت اور ظلم و ظلمت کا خاتمہ ہو۔ خودی کے اظہار کے لیے خیر و شر کے مابین تصادم کی یہ کیفیت ہمیشہ قائم رہی ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
علامہ اقبال نے فلسفہ خودی کی توضیح و تفسیر سے زندگی کی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انسان اپنے وجود کی لامحدود صلاحیتیوں کو پہچانے اور انہیں معرض عمل میں لائے ۔ زندگی فرصت عمل کا نام ہے۔ لذت حیات خودی کی انفرادی حیثیت اور اس کے اثبات و استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ بالفاظ دیگر زندگی قوت سے عبارت ہے اور مذہب قوت کے بغیر محض فلسفہ ہے۔
’’خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے جس میں جذب کرنے اور تسخیر کرنے کی آرزو شامل ہے۔۔۔ جس طرح عشق خودی کو مستحکم کرنا ہے اس طرح سوال خودی کو ضعیف کرتا ہے۔ وہ سب کچھ جو ذاتی سعی کے بغیر حاصل ہو سوال کے ذیل میں آجاتا ہے۔ ایک دولت مند شخص کا بیٹا جسے اپنے باپ کی دولت ورثہ میںملے۔ سائل اور گدا ہے اسی طرح وہ بھی جو دوسروں کے خیالات کے مطابق سوچتا اور خیال کرتا ہو، سائل اور گدا ہے۔ پس خودی کے استحکام کے لیے ہمیں عشق حاصل کرنا چاہیے تاکہ انسان ہر شے کو مسخر کرے اور سوال (بے عملی) کی ہر صورت سے گریز کرے۔ آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ کم سے کم مسلمانوں کے لیے تو عمل کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔
خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں۔ اطاعت ، ضبط، اور نیابت الہٰی ۔ اطاعت ایک حد تک جبر ہے۔ لیکن اسی جبر سے انسان خدا کا مطیع اور فرماں بردار بن کر اختیار حاصل کرلیتا ہے:
اقبال کا انسان کامل اطاعت الہٰی سے تربیت پاتا ہے اور اوصاف الٰہی سے متصف ہوتا ہے۔ تربیت کا یہ راستہ شریعت اسلامی کا راستہ ہے۔ نائب حق روئے زمین پر خلیفۃ اللہ ہوتا ہے، وہ خودی کی تکمیل کا آئینہ ، مقصود انسانیت اور ذہنی و جسمانی اعتبار سے حیات کا شاہکار ہوتا ہے۔ قدرت کا ملہ اور علم کامل اس میں بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں۔ بنی نوع انسان کا اصل حاکم وہی ہے۔ اس کی سلطنت روئے زمین پر خدا کی سلطنت ہے۔ فلسفہ خودی کے ساتھ علامہ اقبال نے نظریہ بیخودی پیش کیا ہے۔ فرد جب تکمیل خودی کے بعد اپنا رابطہ ملت کے ساتھ استوار کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو معاشرے کے سپرد کرتا ہے تو اقبال اسے بے خودی کا عمل کہتے ہیں، انہوں نے اس کیفیت کو ’’خود شکنی‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’حقیقی اسلامی بیخودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات اور رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے،۔‘‘
اعلیٰ اخلاق کے حامل افراد کے باہمی ربط و ضبط سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ فرد جب اپنی خدمات ملت کے حوالے کرتا ہے تو اس کی زندگی ملت کی زندگی کا جزو بن کر لامحدود ہوجاتی ہے۔ فرد کی عظمت کا معیاروہ ایثار ہے جو وہ ملت کے لئے کرتا ہے۔ ملت اسلامی کے دو بنیادی رکن ہیں توحید و رسالت۔
رسالت محمدی ﷺ کا مقصد انسانوں میں حریت ، مساوات اور اخوت کا قیام ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر ایک اعلیٰ ترقی یافتہ اور متوازن معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔ توحید و رسالت کی اساس پر قائم معاشرہ و زمان و مکان کی حدود سے ماوراء ہے۔‘‘ ملت اسلامی کا آئین قران مجید ہے، اس کے بغیر مسلمان کی زندگی ممکن نہیں:
گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
اقبال نے علم خودی کو اس قوت اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا کہ تھوڑی ہی عرصے میں مشرق و مغرب میں اسے زندگی کی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ان کا یہی فلسفہ حیات مسلمانوں کی بیداری اور ان میں انقلابی روح کے ظہور کا باعث بنا جس کے نتیجے میں وہ ایک مستقل مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان رقم طراز ہیں: ’’اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی مرکز قائم کرنے کا جو تصور پیش کیا اس سے بعد میں دورس نتائج مرتب ہوئے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقبال کا یہ خیال کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت ہونی چاہیے اس کی خودی کے فلسفے کے عین مطابق ہے۔

ڈاکٹر سید اکرم اکرام

ای پیپر دی نیشن