”نوازشریف کی تلاشی“ پر دمکتے چہرے

خامیاں مجھ میں سینکڑوں نہیں ایک پنجابی گانے میں گنوائی’لکھ تے کروڑ“ ہیں۔ایک بات مگر حقیقت ہے کہ میں ہر حوالے سے ایک ذہین طالب علم تھا۔ اچھے نمبروں سے روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرے لئے زندگی کے کئی شعبوں میں شامل ہوکر کامیاب ہونے کے امکانات روشن تھے۔ مجھ کم بخت نے مگر صحافی بننے کا فیصلہ کرلیا۔
میں جب بہت چاﺅ سے اس شعبے میں داخل ہوا تو ان دنوں صحافیوں کو ملنے والی تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہوا کرتی تھیں۔ کئی اداروں میں انہیں باقاعدگی سے ادا کرنے کا رواج بھی موجود نہیں تھا۔ بس ”اللہ توکل“ والا معاملہ تھا۔ صحافتی شعبے میں میرے دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے تو جنرل ضیاءکا مارشل لاءآگیا۔ خبریں سنسرہونا شروع ہوگئیں۔صحافت پر لگی پابندیوں کی مزاحمت کرنے کے جرم میں سینکڑوں کارکنوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ کئی ایک نے طویل جیلیں بھی برداشت کیں۔ ہمارے چار ساتھیوں کو کوڑے بھی لگائے گئے۔
جنرل ضیاءکی بدولت صحافت کا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے بھی میں نے اس شعبے میں ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔تنخواہ سے کہیں زیادہ ذہن پر خبط یہ طاری رہتا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسی خبر چھپ جائے جسے فوجی آمر چھپانا چاہ رہا ہے۔ خبر یا کالم لکھتے وقت اپنے ذہن پر بہت زور دیتے ہوئے ایسے استعاروں اور اشاروں کی تلاش جاری رہتی جو مجھے کوئی ”تخریبی بات“ قارئین تک پہنچانے میں سہولت فراہم کرے۔
1986ءکے بعد سے مگر صحافت نے نسبتاََ کھلی فضاءمیں پھلنا پھولنا شروع کردیا۔ 2000ءکا سال شروع ہواتو 24/7چینل کھلنے کے امکانات بھی روشن ہوگئے۔ چند ہی برسوں میں ٹی وی صحافت بڑی آن بان اور شان سے ایک دھانسو شعبہ بن گئی۔ لوگوں کو اس کا مزا آنے لگا۔ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے والے کئی چہرے راتوں رات ”سٹار“ بن گئے۔ انہیں باقاعدگی سے مناسب تنخواہیں ملنا شروع ہوگئیں۔ چند اینکرز کے وارے نیارے ہوگئے۔میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں ٹی وی صحافت کی بدولت ہی Debit Cardکے ذریعے ATMسے رقوم نکلوانے اور بڑے سٹورز سے برانڈڈ چیزیں خریدنے کی عیاشی نصیب ہوئی۔ چہرے اور نام کی مشہوری ملی۔
مناسب تنخواہ اور تھوڑی بہت شہرت کے بعد مجھے عمر کے اس حصے میں مطمئن ہونا چاہیے تھا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ میں کم از کم گزشتہ دو برسوں سے ٹی وی صحافت سے وابستہ ہونے پر خود کو مستقلاً نادم محسوس کرتا ہوں۔ کئی بار جی چاہا کہ سٹوڈیوز کی جگ مگ اور سرخی پاﺅڈر کی بدولت چہرے پر دکھائی چمک سے جان چھڑاکر گوشہ نشین ہوجاﺅں۔ انسان مگر بنیادی طورپر کمینہ،لالچی اور بزدل ہوتا ہے۔ آپ ایک گھر کے سربراہ ہوں اور بچوں کی خواہشوں کو پورا کرنے کی لگن میں مبتلا بھی تو بزدلی آپ کا چلن بن جاتی ہے۔ ٹی وی صحافت کے نام پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس پر محض کڑھتا رہتا ہوں۔ اس سے قطع تعلق کرنے کی ہمت اگرچہ مجھ میں باقی نہیں رہی ہے۔
کچھ دھندے ایسے ہوتے ہیں جن سے وابستہ لوگ شاید اپنے بارے میں ایسے ہی محسوس کیا کرتے ہیں۔ان دھندوں کو مگر معاشرتی اعتبار سے بھی کوئی اچھا دھندا شمار نہیں کیا جاتا۔ صحافت کی مجبوری مگر یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اسے ابھی تک ایک معتبر دھندا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے کم از کم میرے لئے یہ چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو والا معاملہ ہی نہیں بلکہ ایک زنجیر ہے جس سے مفر ہرگز ممکن نہیں رہا۔
صحافت کا اصل مقصد جو مجھے بتایا گیا وہ یہ تھا کہ کوئی ایسی بات ڈھونڈو جو ”آدمی نے کتے کو کاٹ لیا“جیسی انہونی لگے۔ ایسی انہونی کی جستجو کے ساتھ آپ کو مسلسل اس بات پر بھی اُکسانے کی کوشش جاری رہتی ہے کہ کوئی ایسی خبر تلا ش کرو جسے ہمارے ملک کی ہر نوح کی اشرافیہ خلقِ خدا سے چھپانا چاہ رہی ہے۔
”آدمی نے کتے کو کاٹ لیا“جیسی انہونی ٹی وی صحافت کے ذریعے دکھانا اب بھی کسی نہ کسی حد تک ممکن ہے۔”خبر“ جو خلقِ خدا کو دیناصحافی کا بنیادی فریضہ ہے ،البتہ اب کسی بھی صورت ٹی وی پر دکھانا ممکن نہیں رہا۔ صرف رونق اور تماشہ لگانا اور رچانا اب ہماری ٹی وی صحافت کا بنیادی وصف بن چکا ہے۔اسے Infotainmentکا کیوٹ سا نام بھی د ے دیا گیا ہے۔یہ بات یاد رکھے بغیر کہ صحافت کی ہر قسم کو Informاور Educateکرنے کے بعد ہی تھوڑا سا Entertainبھی کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ بدھ کا ذکر کرلیتے ہیں۔ پیر کے روز سپریم کورٹ میں نواز مخالف سیاستدانوں کی جانب سے پانامہ دستاویزات کی وجہ سے منکشف ہوئی باتوں کی تصدیق کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی تھی۔ اصولی طورپر FIA'NABاور FBRجیسے ادارے ہوتے ہوئے ہم پاکستانیوں کو سپریم کورٹ کے روبرو یہ سوال لے کر جانے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کہ وہ اس بات کی تصدیق کرے کہ پانامہ دستاویزات میں وزیر اعظم کے خاندان کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ جن اداروں کے میں نے نام لئے ہیں اگر ان کو س اسلسلے میں کچھ قانونی رکاوٹیں پیش تھیں تو ان کا سراغ لگاکر تحقیقاتی اداروں کی مشکلات کو قانون سازی کے ذریعے حل کیا جاسکتا تھا۔ پارلیمان کا بنیادی مقصد ہی ایسی قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔
ہمارے قانون ساز ادارے کے قائد نواز شریف مگر اس ادارے میں تشریف لانا ہی گوارہ نہیں کرتے۔ ان کا مزاج شاہانہ ہے۔ شاہی مزاج کو زمینی حقائق سے آشنا کرنے کے لئے مگر پارلیمان میں اپوزیشن ہوا کرتی ہے اور ہماری مقننہ کے دونوں ایوانوں میں بلندآہنگ اور قدآور سیاست دانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ فرض کریں کہ عمران خان جیسے قد آور رہنما قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں راولپنڈی سے آئے بقراطِ عصر کی معاونت سے کھڑے ہوکر وزیراعظم کے لئے چند سوالات مسلسل اٹھاتے رہتے تو انہیں روکنا اور ٹالنا کس حد تک ممکن تھا۔
”شاہی خاندان“ کو لیکن پارلیمان کے روبروجوابدہی کے لئے مجبور کرنے کی ہرگز کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ اسے پُرزور بنانے کے لئے اسلام آباد کی تالہ بندی کا اعلان بھی ہوا۔ پیر کے دن اس معاملہ پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے دوپیروں پر مشتمل ایک مختصر فیصلہ لکھا۔IF (اگر)، (تجویز) Proposal اور Consideration (غور کرنا) جیسے لفظ لکھ کر ایک ایسے کمشن کے قیام کے امکان کے اشارے دئیے گئے جو ازخود کچھ رہنما ہدایات (TORs) طے کرتے ہوئے پانامہ دستاویزات سے جڑے سوالات کا کھوج لگائے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مگر تحریک انصاف نے ”نواز شریف کی تلاشی“ پر آمادگی قرار دے ڈالا۔اس ”آمادگی“ پر جشن ِتشکرمنانے کے لئے اسلام آباد کی پریڈ گراﺅنڈ میں بدھ کے دن ایک جلسہ کرنے کا اعلان ہوا۔پہلے وہ جلسہ دن کے دو بجے شروع ہونا تھا۔ بعدازاں اس کا وقت شام 5بجے مقرر ہوگیا۔ سارا تماشہ بالآخر شب ساڑھے دس بجے ختم ہوا۔
بدھ کا سارا دن ہمارے تمام ٹی وی چینل Liveکٹ کرکے اس جلسے کی تیاریوں کا احوال بتاتے رہے۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو عین اس وقت کراچی سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر گڈانی کے ساحل پر ایک دیوہیکل جہاز سے شعلے اور دھوئیں کے بادل آسمان کو چھو رہے تھے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی جان پایا کہ اس جہاز کو آگ کیسے لگی اور کتنے بدنصیب مزدور اس آگ کی لپیٹ میں آئے۔ گڈانی کے ساحل پر بھڑکی آگ کئی سوالات اٹھانے کا م¶جب بن سکتی تھی۔ ان سوالوں کا جواب حکومت کے کئی اداروں کو فراہم کرنا ضروری تھا۔ ہم صحافیوں نے مگر وہ سوالات اٹھائے ہی نہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ”جب آئے گا عمران....“کی دھن پر رنگ ونور کی برسات دکھاتے رہے۔ ”نواز شریف کی تلاشی“ پر دمکتے چہرے دکھاتے ہوئے ہم نے ان سینکڑوں مزدوروں کو سفاکانہ طور پر فراموش کردیا جو گڈانی کے ساحل پر شعلوں کی لپیٹ میں آکر جھلس گئے۔ ہمیں تو اب تک ان کی حتمی تعداد بھی معلوم نہیں ہو پائی ہے۔

ای پیپر دی نیشن