پیٹ بھرے کی مارنا ایک قدیم محاورہ ہے کہ جب کوئی شخص احساس و شعور کو خیر آباد کہہ کر ایسی بد مستی پر اتر آئے کہ اس کی زبان بے قابو ہو جائے اور وہ کسی ادب اور مروت کو بھی بھول جائے جو منہ میں آئے اگل دے اور الفاظ کی حرمت کو بے توقیر کرے ۔ یہی حال ہمارے ان سیاسی جغادریوں کا ہے جو اپنی راگنی میں بدمستی اور انسانی بے توقیری کے شیطانی نغمات کو مستقل بسائے ہوئے ہیں ۔ نہ مظلوم کی آہ و سوز کا پتہ چلتا ہے اور نہ ظالم کی تیشہ بازی کا سراغ ملتا ہے۔ کون کس کو کھلا رہا ہے اور کون کس کی پشت تھپتھپا رہا ہے ۔ عوام بے خبری میں ہر ایک کو زندہ باد کہہ رہے ہیں ۔ بے چارے حالات کی جبری افیون کھا رہے ہیں اور آنکھیں کھولے اندھے پن کا مظاہرہ ان کا قومی مقدر بن گیا ہے ۔
گزشتہ دنوں دھرنا دو اور دھرنا روکو مہم میں بے چارے بے کس اور روٹی کے بھکاری عوام کو کسی نے کرکٹ کی گیند سمجھ کر فضا میں اڑایا اور کسی نے روایتی فٹ بال سمجھ کر پائوں سے روندا۔ کہیں جبر کی فضا میں خوف کا سماں تھا اور کہیں حسین مستقبل کے لالچ میں نوجوان بے خوف ہو کر نعرہ بازی کر رہے تھے ۔ لیکن سب سے بری بات تو یہ تھی کہ پولیس کی وفائے وطن مشکوک ماحول میں بدل گئی۔ پولیس کی قیادت کے انداز اب برملا یہ ہیں کہ یہ وطن پاکستانی عوام کا نہیں ایک جابر اور بے حس حکمران کا ہے ۔ اس کے خاندان کا ہے اور اس کے حواریوں کا ہے ۔ باقی جو بچے گا وہ مفاد پرست مداریوں کا ہے۔ کسی دور میں جبری سیاسی فضا کا شکوہ حبیب جالب نے یوں کیا تھا ۔
غنڈہ گردی نے حد کر دی ، چپ ہیں سیاسی سپاہی با وردی
شمع نوائے اہل سخن، کالے باغ نے گل کر دی
نواب کالا باغ تو ایک شخص تھا اور اب تو ہر بگڑا دل نواب آف کالا دماغ ہے۔ دماغ میں اندھیرا ہے ۔ وہ لوگ جو سورج کی ڈوبتی ہوئی ٹکیا کو بھی زر کی تھالی سمجھتے ہی اور غروب آفتاب کے بعد چھا جانے والے اندھیرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو اندھیر نگری کا چوپٹ راجا کہا جاتا ہے ۔ دھرنے دھرے رہ جاتے ہیں، عوام ہر مرتبہ ووٹ دیکر بھی اور دھرنا دیکر بھی ہار جاتے ہیں ۔ اشتہاری شور و غوغا اتنا مؤثر ہوتا ہے کہ بے چارے غریب مفلوک الدماغ عوام سبز اشتہار کو ہرا بھرا لہلاتا وطن سمجھ کر خوش ہوتے ہیں، ان کی آنکھوں میں طراوت آتی ہے لیکن سوچ مفلوج ہو جاتی ہے۔ قوم کے اصل مسائل پانی کی فراہمی ، فصلوں اور اناجوں کی پیداوار ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کا مستقبل سنوارنا ہے۔ تعلیمی ترقی کی وہ راہیں تراشنا ہیں جن راہوں سے قوم کی دینی اور ملی شناخت ہو سکے۔ قوم کا ایک بنیادی مسئلہ دہشت گردی سے نجات ہے۔ قوم کی بنیادی ضروریات میں سے بے گھر لوگوں کیلئے چھت کی فراہمی ہے اور بڑی اور سب سے بڑی ضرورت قومی و دینی غیرت کا تحفظ ہے۔ لیکن بے خبری کا منظم ماحول جبر کی روایت کو مسلسل مائل بہ ترقی کئے ہوئے ہے۔ ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے مگر کیسے سمجھے اس سے سمجھ چھین لی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ادارے میں آزادانہ ماحول میں اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہے تو اس پر حکمران کی ظالمانہ بے وجہ تعزیریں سوچ کے زاویے تنگ کر دیتی ہیں۔ چھوٹے ملازمین بے چارے بے آئی پر نذر زنداں ہوتے ہیں اور بے گناہی ان کا گناہ قرار پاتی ہے ۔ قانون کا پہرہ ان کی ضعیفی پر مرگ مفاجات بن کر ٹوٹتا ہے۔ لیکن جابر منظم قزاقوں کے قافلوں کو اپنی شکار گاہ وسیع کرنے کے وسیع مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ پھر محفل طرب میں طوش و رباب کی بادشاہی ہوتی ہے۔ یہ اندھیری راتوں کے اپنے جداگانہ لچھن ہیں ۔ لوگ ہی تو اندھیری رات کے احنام زر کے پجاری ہیں ۔ یہ اندھیرے بدست پجاری اپنی ساکھ کی بقاء کیلئے سادہ دل عوام کو اپنی چرب زبان سے بائولا کئے دیتے ہیں ۔ اس فن میں اتنے شاق ہیں کہ رات کو دن اور دن کو رات کہیں تو لوگ ان کی بات تعویز رد بلا جان کر پلے میں ایسے باندھتے کہ اگلی نسل اس وبائے جان بیان کو اجداد کی سوغات سمجھ کر سنبھالیں۔ یہی مصیبت نسل در نسل پاکستان کے سادہ دل عوام کو آسیب کی شکل میں لاحق ہے۔ لوگ کبھی اسلام اور کبھی جمہوریت کے نام پر اپنے آسیب کا ترباق تلاش کرتے ہیں۔ مگر اسلام کی روح کے علمبردار تو اب قبروں میں جاسوئے اور جمہوریت کو درگور کرنے والے تخت بردار ہیں اور ایسے ایسے فارمولے تراشتے ہیں کہ پناہ خدا کی۔ جوا کوئی کھیلتاہے۔ بساط کسی کی ہے۔ پیادہ گوٹی کسی کا نام ہے۔ وہ پرانی بساط جو مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں نے بچھائی تھی اس پر کئی شاطر اپنے اپنے ضمیر فروش وجود کو لئے کھیلتے ہیں۔ دو دھرنا دیدو دھرنا روکدو، کھیل میں محراب و منبر کے تقدس کو بھی رگیدا گیا۔ ہر چھوٹی چھوٹی ٹکری والے صاحبان تقدس چھوٹے چھوٹے ٹکرے پر گرے بڑی دستار کروڑوں میں نیلام ہوئی اور معتبر واعظ دلربا لاکھوں کے امانتدار قرار پائے، ذرا نچلی سطح کے ترنم باز اور فقرہ ساز ہزاروں میں خوش ہوگئے۔بنسری بج رہی ہے اور بنسری باز رقاصوں کے کتھک پہلوئوں پر پوری نظر رکھے ہوئے جو ذرا چال سے باہر ہوا۔ بنسری باز نے اسے دائرہ سے نکال باہر کیا۔ باقی بے غیرتی کی تال پر …ع
جنا تیری مرضی نچا بیلیا
کا ضمیری منشور کا اعلان کرتے ہوئے کسی اڑتی چیل سے خیرات کے متمنی ہے لیکن نیرو تو پورے روم کو آتش بوجود دیکھ کر بنسری کی لے تیز کرے گا اور حیلہ پرویزی سے کتنے ہی سعید و رشید گرا کر دم لے گا۔ گاجر خور جلد ہی در طبیب پر پیٹ پکڑے ہائے ہائے کریں گے۔ آسمان سے اترنے والے چیتا نظر عذابات ان کے گھر کے ہر شناختی کارڈ نمبر کو زبانی یاد کئے ہوئے ہیں۔ عذاب پر تولے کھڑا ہے۔ اب غیب سے مفلوک الحال عوام کی بد دعائوں کا مظہرا بابیل چھوٹی چھوٹی کنکریاں لئے ہر بدمست ہاتھی کو اگلے ہوئے بدبودار بھوسے میں بدلنے کیلئے فطرت کے حکم آخر کی منتظر ہیں۔