’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘

خدشات تھے کہ دعویٰ کے مطابق لوگوں کو اکٹھا نہیں کر پائیں گے۔ افواہیں، سینہ گزٹ خبریں اتنے مضبوط یقین کے ساتھ پھیلائی گئیں کہ لوگوں کی مطلوبہ تعداد نہ پہنچنے کے ڈر سے عمران خان نے دھرنا کو جلسہ میں بدل دیا، پر ایک دن کے نوٹس پر بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت، خود پارٹی کو توقع نہیں تھی جتنی تعداد پریڈ گرائونڈ پہنچ گئی۔ ممی ڈیڈی گروپ، برگر فیملی سے معروف پارٹی پچھلے ایک ہفتہ سے جاری کھینچاتانی، گھیرائو، مارپیٹ کے بعد ’’مزاحمتی پارٹی‘‘ کے روپ میں نظر آئی۔ مان لیا ’’دس لاکھ‘‘ آجاتے، کچھ نہیں ہونا تھا جو جگہ جگہ پکڑ دھکڑ، چند درجن لوگوں پر ’’شیلنگ‘‘ نے کر دیا۔ ’’20 لاکھ‘‘ بھی اکٹھے ہو جاتے، مہینہ پڑے رہتے، تب بھی وہ کچھ نہ ہوتا جو چند دنوں میں حکومتی نادانی بے تدبیری کی ازکار رفتہ پالیسی نے کر دکھایا ہے۔
’’سیاسی شہادت‘‘ کے مرتبہ کی نسبت قانونی طریقہ سے کرپشن کی تحقیق کے فیصلہ نے سیاسی گرما گرمی کو یلخت سرد کر دیا۔ ’’دھرنا‘‘ کی جگہ ’’یوم تشکر‘‘ منانے کا فیصلہ ہر لحاظ سے موزوں تھا۔ اعلان سے ایک دن قبل سیاسی جماعتیں موقع کی نزاکت، بحران کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے ازخود ’’خان صاحب‘‘ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی نظر آئیں۔ صوابی قافلے کی استقامت، رکاوٹیں ہٹانے کی کارروائی، آتشزدگی، پتھرائو دیکھا تو سمجھے کہ ’’حلوہ‘‘ تو سارا ’’خان‘‘ کھا جائے گا، کسی نے اجلاس بلا لیا، کسی نے ٹکٹ کٹوالی، کارکنوں کے بڑھتے غم و غصہ سے خانہ جنگی کا خطرہ ظاہر ہو رہا تھا۔ شکر کہ بڑے تصادم سے پہلے ’’قافلہ‘‘ واپس چلا گیا اور ’’کپتان‘‘ کی ہدایت نے ملک کو ایک خونی فساد سے بچا لیا۔ ہنگامی کیفیت کو ختم کرنے کی تعریف ہونا چاہیے تھی مگر سب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ ’’دھرنا‘‘ ختم کر کے کپتان ایک زیرک، معاملہ فہم رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ دوسری طرف منظر یکسر اُلٹ تھا، احتجاجی کال دینے والا آگ بجھانے آگے بڑھتا ہے تو کچھ گھنٹوں پہلے حق میں بولنے والے شروع ہو گئے۔ وہ لمحہ جب موٹروے سے لے کر مختلف شہروں کی گلیاں، سڑکیں میدانِ جنگ بنی ہوئی تھیں۔ حکومت نے مذاکرات کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے ’’بنی گالا‘‘ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اگلے دن ’’سپریم کورٹ‘‘ میں کیس چلنے پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان سنتے ہی سب لٹور لے کر پیچھے پڑ گئے۔ ’’پہلے للکاتے ہیں، پھر ڈراتے ہیں (گورنر راج کا شوشا بھی دھمکی کے طور چھوڑا گیا تھا) فریقِ مخالف کے بپھرنے پر معافی تلافی پر آجاتے ہیں۔ آگے والا ذاتی یا قومی مفاد میں فیصلہ بدل دے، ترمیم کر دے تو دوبارہ سے لاٹھیاں لے کر پل پڑتے ہیں کہ پیچھے کیوں ہٹے‘‘۔ ’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘۔ محمد حسین آزاد کی پڑھی ہوئی کہانی آج بہت یاد آئی۔ طعن، طنز کے نشتر چلتے دیکھ کر خیال ہوا کہ یہ لوگ خود بھی خون خرابہ کے خواہاں تھے۔ ’’وزیراعظم صاحب‘‘ نے وزراء کرام کو سیاسی مخالفین کے ساتھ اُلجھنے سے گریز کی ہدایت کی مگر ’’حکومتی عقابوں‘‘ نے تلقین کا بھرکس بنا کر رکھ دیا۔ جمہوریت کی فتح ہوئی، کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی۔ ’’چوہدری نثار‘‘ بے حد ذمہ دار عہدے پر فائز شخص کی طرف سے بیان دانش مندی کا عکاس، ایک اور بیان، مقام بہت محترم ہے مگر الفاظ سوائے شعلہ بھڑکانے کے کچھ نہیں کرتے۔ یقیناً سازشوں سے کامیابی نہیں ملتی مگر یہ تو آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ سازشیں کامیاب ہو جائیں تو حکومتیں بھی چلی جاتی ہیں۔ وزراء کے کہنے پر ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کرے کہ ’’عمران خان‘‘ کھلنڈرا پن چھوڑ دے مگر قوم بھی مطالبہ کر رہی ہے کہ سمجھداری کا مظاہرہ کریں مگر نامعلوم بعض ’’عقاب‘‘ کیوں جمہوری روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’’انڈیا‘‘ کی طرح مسلسل اشتعال انگیزی پر تلے ہوئے ہیں۔ ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ نے فریقین کو اپنے گھوڑوں کو لگام دینے اور پرسکون رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سب کو سخت مؤقف پر نظرثانی کرنی چاہیے مگر ہمارے ملک میں ’’ہدایت‘‘ نامی بات کو وقعت دینے کی عادت مفقود ہے۔
’’قارئین‘‘ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت کا معیار، ساخت کیا ہے۔ جمہوری دور میں سیاستدان آپس میں لڑتے ہیں، ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ ’’خاکی نظام‘‘ نافذ ہونے کی درپردہ کوششیں کرتے ہیں۔ مارشل لاء میں ’’آمر‘‘ کے دائیں بائیں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تماشا نہیں کہ جمہوری دور آنے پر یہی ’’دست و بازو‘‘ آمریت کے خاتمہ کے جشن میں بھی صف اول میں دکھائی دیں؟ ’’70 سالہ انداز سیاست، جمہوری مزاج نے ثابت کر دیا کہ واقعی انسان کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا‘‘۔
الزام تراشی کا کلچر بند ہونا چاہیے۔ آج ’’سپریم کورٹ‘‘ میں سماعت کے بعد اتحادی جماعتوں میں ناخوشگوار جملوں کے مناظر دیکھے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنی صفوں میں شامل شرپسند عناصر کی بیخ کنی کرنی پڑے گی۔ سیاسی انتشار مکمل طور پر ٹلا نہیں، صرف سیاست کو ہی نہیں بلکہ معیشت سماجی سیکٹر بھی بڑے نقصان کا موجب بن سکتا ہے ویسے بھی طبقات کے مختلف گروہ آج بھی کسی نہ کسی شہر میں سڑکوں پر مظاہرہ کرتے، ٹائر جلاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ آج یا سال سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے محرومی، ناانصافی پر سراپا شکایت بنے ہوئے ہیں۔ واقعی سڑکوں پر آنے، احتجاج کرنے سے فیصلہ نہیں ہوتا۔ کہتے ہوئے بھول گئے کہ احتجاج سے ہی ’’ججز صاحبان‘‘ بحال ہوئے۔ پہلے وکیل پھر ’’آپ‘‘ سڑکوں پر نکلے تو فیصلہ آدھی سڑک میں ہو گیا تھا۔ ’’ایک نمبر، دو نمبر ایمپائر‘‘ کی گریڈنگ کرنے کی بجائے مشورہ ہے کہ حکومت بھی ’’عوام کا پیٹ‘‘ بیانات، اشتہارات سے بھرنے کی کوششیں ترک کر کے وعدے پورے۔ کم لوگ لانے یا ناکامی کا طعنہ اس لئے غلط ہے کہ 2010ء میں پاکستانی سیاست میں تیسری قوت کے طور پر اُبھرنے والی جماعت مقبولیت اور ووٹرز کی تعداد کے لحاظ سے آج پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔ ’’پی ٹی آئی‘‘ کے پرستاروں کی اکثریت جدید تعلیمی اداروں کے نوجوانوں اور معاشرے کے باشعور شہریوں پر مشتمل ہے۔ وہ ہر حال میں ’’خان‘‘ کی کال پر پہنچتے ہیں۔ سکیورٹی صورتحال اور حکومتی تھریٹس کی اطلاعات پر بھی کان نہیں دھرتے۔ ثبوت بوڑھی عورتوں کے ساتھ معصوم بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت ہے۔ سب سے بنیادی ذمہ داری ’’میڈیا‘‘ پر عائد ہوتی ہے۔ صوبائی تعصبات کو اُبھارنے کی سیاسی کوشش شروع میں ہی دب گئی مگر جلسہ کے بعد میڈیا نے شرارتی ٹول کے طور پر بار بار نمایاں کیا۔ یہ ہرگز قابل تعریف رویہ نہیں، صرف اندرون ملک نہیں بلکہ سرحدوں پر بھی حالات خراب ہیں۔ ’’کلبھوشن‘‘ کے بقیہ بچے بھی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کا قابل مذمت پہلو اندرونی معاونت فراہم کرنے والے ’’ہم وطن گروپس ہیں‘‘۔ ہمارا مشورہ ہے کہ خبریں جاری کرنے، سنسنی پھیلاتی گرفتاریوں، ازاں بعد مفاہمت، بیماری کے نام پر رہائی جیسے ڈرامے بھی بند ہونا چاہئیں۔ جہاں ثبوت ہے، وہاں مکمل گرفت کریں۔ میڈیا اِس ضمن میں اپنا سرگرم کردار ادا کرے۔ وطن دشمنی اور وطن دشمنوں کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ میڈیا اپنی آزادی سے قبل کی تصویر کو سامنے رکھ کر سنجیدگی بردباری سے کام کرے۔ ’’جس کا نام اُسی کو ساجھے‘‘ والے اصول پر عمل کریں تو نہ صرف پیش آمدہ تنازعات سے نکل سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں بھی گھڑی، حالات سے بچنے کی تدبیر ہو سکتی ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہمیں بری نظر، بری گھڑی، برے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ ’’آمین‘‘

ای پیپر دی نیشن