آدابِ زندگی

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود شہر کے لوگوں میں تہذیب اور تمیز کا فقدان پایا جاتا ہے‘کیا سیکھ رہے ہیں کیا سکھا رہے ہیں‘ آدابِ زندگی سے ناآشنا ہیں۔وہ حضرات جو سگریٹ پی رہے ہیں تو دھواں دوسروں پر اُڑا رہے ہیں ‘خود تو دھوئیں کی صورت میں آگ سُلگ رہے ہیں دوسروں کو بھی اس آگ کی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پان کھایا اور پیک سڑک یا دیوار پر دے ماری‘شاید ہی کوئی ایسی سڑک بچی ہو جو گٹکوں،ماووں،چونے کتھے سے نہ رنگی ہوئی ہونو جوانوں کا یہ حال ہے کہ بس ‘کلینک یا پبلک پلیس پر بیٹھے ہیں تو یہ احساس بھی دل سے جاتا رہا کہ اپنے بزرگ بوڑھوں کا خیال کرتے ہوئے نشست چھوڑدیں ‘وہ بزرگ یاآس پاس کے لوگ آپ سے کچھ کہہ نہیں رہے تو آپ بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھے ہیںیہ احساس ہمارے اندر خود پیدا ہونا چاہئے کہ بے چارے ایک تو پتہ نہیں کہاں سے تھکے آرہے ہیں دوسرا ایک طویل عمر کی تھکن کا سفر طے کرکے آئے ہیں ‘ میں تو ہٹا کٹا‘ چُست‘ تندرست و توانا ہوں اگر کھڑا ہوجاو¿ں گا تو کچھ ہو نہیں جائے گا‘ کتنی دعائیں اس ذریعے سے آپ سمیٹ سکتے ہیں‘دوسرے دیکھنے والوں پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔عموماً ہم ہمارے نوجوان اور بچوں کو یہ احساس باور ہی نہیں کراتے کہ بیٹا آپ فریج سے پانی نکال کر پی رہے ہیں تو بوتل میں منہ لگا کر کھڑے ہوکر پی رہے ہیں‘یہ بد تہذیبی کے زمرے میں آتا ہے‘تمیز کا دائرہ یہ ہے کہ پانی بیٹھ کر‘قبلے کی جانب چہرہ کرکے تین سانسوں میں پیا جائے‘آخر میں شکر الحمدللہ کہا جائے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی باور کرائیں کہ جمائی آئے تو اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی منہ پر رکھیں‘کھانسی آئے تو مُٹھی کوسیدھا منہ میں رکھ کر کھانسیں‘چھینک آئے تو دونوں ہاتھوں کو پورا منہ پر رکھ کر چھینکیں۔کچھ ایسے بھی ہیںجو گاڑی چلارہے ہیں ‘کیچڑ پڑی تھی کیچڑ دوسروں پر اچھال کر گاڑی بھگا دی‘دو بول معافی تلافی کے کہنے کی بھی جسارت نہ کرسکے۔شادی بیاہ کے موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ میوزک سسٹم
آن کر کے زور وشور سے گانے بجانے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے اور اپنا حق جتایا جاتا ہے‘اتنا بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ کوئی بیمار ہوسکتا ہے‘کسی کی نیند حرام ہوسکتی ہے‘کوئی اذیت کا شکار ہوسکتا ہے‘ہم اپنی ذات سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو نقصان بھی نہ پہنچائیں۔کچھ تو ایسے بھی بے مروت ہیں جنہوں نے گاڑی غلط جگہ پارک کردی جس سے آنے جانے والوں کو تنگی ہورہی ہے‘اب آپ کو تو احساس بھی نہ ہوا اور جناب آپ چلے آرہے ہیں ایک طویل خوش گپیوں کے بعدکہ جب پوری سڑک پر ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے۔مساجد کے باتھ روم غلاظت سے بھرپور ‘غیر مناسب حالت‘نا قابلِ استعمال۔گلی محلوں میںکچرے کے ڈھیر ‘گٹر نالیاں بہہ رہی ہیں‘کوئی پرسانِ حال ہی نہیں ‘علاقے کی حالت سے آپ اس کے مکینوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ایسے حضرات کو تو میرا سلام ہے کہ جن کا سرہانہ کچرے خانے کا منظر پیش کررہا ہے اور وہ اس کو بھی صاف کرنے سے قاصرہیں۔آپ کے آس پاس کے لوگ اگر آپ سے خوش نہیں اور سجدے کر کر کے آپ کی پیشانی پر کتنے ہی نشانات اور دھبے پڑ جائیں تو آپ نے کچھ نہیں کمایا‘سب صاف۔بظاہر آپ نیک ‘صوم وصلوٰة کا پابند ‘متقی لوگوں کی فہرست میں لگے ہونے کے دعویدار ہیں مگر آپ صالحین کا لبادہ اوڑھ کراپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ہمار ا دین بتلاتا ہے کہ پڑوسیوں ہمسایوں‘رشتہ داروں ‘دوست احباب ‘گھر والوں‘بچوں‘ بیواو¿ں‘غلاموںکنیزوں‘شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں یہاں تک کہ پیدل چلنے والے اور ساتھ بیٹھنے والے کے بھی حقوق ہیں‘راستے کا بھی ہم پر حق ہے کہ تمیز کے ساتھ ایک کونے پر نظریں نیچی کر کے کھڑا ہوا جائے۔دینِ مبین میںانسان پر جانوروں تک کے حقوق کا احساس دلایا گیا ہے۔دوسری جانب سلام کرنے کا رواج بھی سِرے سے ختم ہوتا جارہا ہے‘اگر کوئی اجنبی سلام کرلے تو حیرانی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پتہ نہیں کیوں سلام کررہا ہے میں تو اسے جانتا بھی نہیںحالانکہ یہ بات معروف ہے کہ جان پہچان ضروری نہیں‘دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر جان پہچان ہے پھر بھی سلام کا جواب عموماً دیا نہیں جاتا یا صرف سر ہلادیا جاتا ہے یا تکبرانہ انداز اپنایا جاتا ہے جس سے سلام کرنے والا اگلی بار سلام سے بھی فارغ ہوجاتا ہے۔السّلام علیکم ”آپ پر سلامتی ہو“یعنی سلام کرنے والا surityدے رہا ہے کہ آپ پر ہر طرح سے

سلامتی ہو ‘میری ذات سے بھی آپ کو سلامتی ہی ملے گی کوئی تکلیف نہیں ملے گی ہے۔ آدمی ایسے ہی بڑا نہیں کہلاتا ‘یہی چھوٹی چھوٹی باتیںاسے بڑا بناتی ہیں۔یہی چیزیں قوم کو representکرتی ہیں‘قوموں کی پہچان قائم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہیں‘قوموں کا وقار بلندوبالا کرتی ہیں۔یہ چیزیں آج قومی وطیرہ بن چکی ہیں۔جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو ۔لہریں جس رُخ بہہ رہی ہیں ہم بھی وہیں بہیں گے۔یہ تو عقلمندی نہ ہوئی ۔دین کے ہر ہر شعبے پر مکمل عمل کریں گے تو بنے گا اور کہلائے گا جنت نظیرمعاشرہ۔جس میں آقااپنے غلام سے خوش،پڑوسی کو اپنے ہمسائے سے کوئی شکایت نہیں‘بیوی شوہر سے خوش ہے شوہربیوی سے خوش ہے‘رعایا اپنی حکومتوں سے مطمئین ہے۔سب کو یکساں حقوق میسر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن