ہماری معیشت اور امریکی ڈو مور

پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی ہمارے ارباب اختیار کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کیساتھ ساتھ امریکیوں کی مہربانیوں کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ امریکہ نے اپنی ضد وانا کی وجہ سے نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ کا اعلان کیا اور ہم بلاخوف وخطر اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں کود کر اپنے ملک میں دہشت گردی کو دعوت دے بیٹھے جس کی وجہ سے ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنے ستر ہزار سے ذائد بے گناہ شہریوں اور فوجی جوانوں کی قربانی دے چکے ہیں جبکہ اس دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت کو 118ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے ۔ امریکیوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کودہشت گردی کی اس جنگ میں کثیر مالی امداددے چکے ہیں مگر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ستمبر 2001سے جنوری 2016کے دوران کولیشن سپورٹ کی مد میں امریکہ ہمیں صرف 16ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے جبکہ مرکزی بینک کی نومبر 2016کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت کو 118ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے یعنی امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد ہمیں اب تک جو امداد دی ہے وہ ہمارے نقصانات کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

پاکستان کا امریکہ کو بغیر چوں چراں ساتھ دئیے جانے کے باوجود امریکہ معاشی و عسکری طور پر بھارت کو ہی مضبوط کئے جارہا ہے اور پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے مسلسل ڈو مور کی تکرار کئے جارہا ہے اس لئے اب پاکستان کے ارباب اختیار کو حقیقی دوست و دشمن کو پہچانتے ہوئے ملکی مفادکی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔خیر دیر آید درست آید کے مصداق اس بار امریکہ کے ڈو مور کے جواب میں حکومتی ارباب اختیار نے امریکہ کو ہری جھنڈی دکھائی ہے جو کہ ایک اچھی مثال ہے جس کو اپنے ملکی مفادات کے تحت قائم رہنا چاہیے۔میں نے اپنے گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ملکی سلامتی ودفاع اور مضبوط ومستحکم معیشت ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔
اس تناظر میں دیکھیں تو اللہ تبارک تعالیٰ کے کرم سے اس وقت پاکستان کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے اور پاکستان کی مسلح افواج اپنی پوری پیشہ وارانہ صلاحیت اور بھرپور اہلیت سے مالا مال ہے اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو بھی بیرونی دبائو سے آزاد، خودمختار اور مضبوط بنائیں جبکہ ہمیں امریکہ کو بھی یہ باور کرانا چاہیے کہ دو طرفہ تعلقات دھونس، دھمکی اور دبائو کی بنیاد پر قائم نہیں کرنے چاہیے بلکہ دوستی ، احترام اور باہمی مفادات کو مد نظر رکھنا چاہیے اور جس طرح امریکہ بھارت سمیت دوسرے کئی ممالک کو اپنی منڈیوں تک رسائی دے رہا ہے اور اپنے تاجروں وصنعتکاروں کو ترغیب دے رہا ہے اسی طرح سے پاکستانی تاجروں وصنعتکاروں کو بھی اپنی منڈیوں تک رسائی دے ۔اسکے برعکس امریکہ نے گذشتہ 18سالوں سے اپنے شہریوں کیلئے پاکستان کا سفر نہ کرنے کی ایڈوائس جاری کررکھی ہے اور ہمارے صنعتکاروں وتاجروں کیلئے بھی امریکی ویزوں کے حصول میں مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں اور امریکی منڈیوں تک پاکستانی تاجروں وصنعتکاروں کی رسائی دینے میں بھی روکاوٹیں حائل کررکھی ہیں تو پھر امریکہ کیلئے پاکستانی مصنوعات کی برآمدات کا حجم کیسے بڑھ سکتا ہے ؟جبکہ کئی امریکی صدور جن میں گذشتہ صدور بل کلنٹن ،جارج ڈبلیو بش اورباراک اوبامہ شامل ہیں وہ اپنے لمبے چوڑے وفود کے ساتھ بھارت کے طویل دورے کرچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی بھارتی تجارتی حجم بتدریج بڑھتا ہی جارہا ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اب بھی امریکہ پاکستان کا پانچواں بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور پاکستانی برآمدات میں 13.6فیصد حصہ امریکہ کا ہے مگر اس میں تقریباً دگنے اضافے کی گنجائش اب بھی موجود ہے جس کی راہ میں صرف اور صرف امریکی منافقانہ پالیسیاں روکاوٹ ہیں۔
اسکے علاوہ اب پاکستان کو چاہیے کہ اپنی معیشت کوآزاد وخودمختار بنانے کیلئے بیرونی امداد و بھیک پر انحصار کم سے کم کرے اور اپنے ملک میں دستیاب وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کرے کیونکہ بیرونی قرضوں پر کم سے کم انحصار کی پالیسی سے بے جا بیرونی دبائو میں کمی آئے گی اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے سے معیشت مضبوط ہوگی جبکہ اس وقت پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا 84ارب ڈالرز کا مقروض ہے اور اس پر سود کی رقم بھی 14ارب ڈالرز کے قریب ہے مگر اگر ہم اپنے وسائل ، اپنی قابلیت اور اپنی افرادی قوت پر بھروسہ کریں تو بہت قلیل عرصے میں پاکستان کوبیرونی قرضوں سے نجات دلاسکتے ہیں اور جب بیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ پاکستان کی معیشت پر نہیں ہوگا تو کوئی بھی پاکستان پر اپنی مرضی اور من مانی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرسکے گا ۔کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج دنیا کا کوئی ملک بھی عالمی مالیاتی اداروں کے سہارے اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکا ہے جس کی زندہ مثال ملائشیا کی ہے کہ جب1997میں ایشیائی ممالک پر معاشی بحران آیا تو ملائشیا بھی اس کی زد میں آیا تو آئی ایم ایف کے ارباب اختیارملائشیاء کی مدد کیلئے انکے دروازے پر پہنچے تو ملائشیاء کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بہت شکریہ کے ساتھ ان کو واپس کردیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملائشیاء بہت مضبوط معاشی طاقت بن چکا ہے جبکہ کئی دیگر ایشیائی ممالک مثلاً بنگلہ دیش، سنگاپور، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ وغیرہ اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے مضبوط و مستحکم معاشی طاقت بننے کی جانب قدم بڑھارہے ہیں۔ مگر ہمارے ارباب اختیار نے تو شائد اپنے تجربات سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے حالانکہ اس وقت بھی ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنے وسائل پر تکیہ کریں تو ہم بھی مستحکم ومضبوط معاشی طاقت بننے کی طرف قدم اٹھاسکتے ہیں۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس وقت دیگر کئی عالمی معاشی طاقتیں پاکستان کی معاشی مدد کیلئے موجود ہیں جن میں چین، ترکی اور اب روس بھی پاکستان کی معاشی مدد کے لئے آ گے بڑھتے نظر آرہے ہیں اس لئے اب ہمیں امریکیوں کے دبائو میں آنے کے بجائے برآمدات کیلئے نئی متبادل منڈیاں تلاش کرنی چاہیے۔ اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے اپنے ملک کے مالیاتی نظام میں اصلاحات لاکر ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہیے اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا چاہیے ‘ اسی میں پاکستان کی ترقی وخوشحالی کا راز پوشیدہ ہے ۔

ای پیپر دی نیشن