امریکی وزیرخارجہ کا بھارت جاتے ہوئے پاکستان میں چند گھنٹوں کا ٹھہرائو سفارتی بداخلاقی کے مترادف ہے۔ جاتے ہوئے انہوں نے ایک تحریری نوٹ پاکستانی حکام کے حوالے کیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی سفارتکار ایلس ولز نے کہا ہے کہ ‘‘امریکہ پاکستان سے مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں کے اندر اندرعملی اقدامات چاہتا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ اس طرح وہ اپنے ملک کو غیر مستحکم ہونے سے محفوظ رکھ سکے گا۔’’ پاکستان نے بیک جنبش قلم اس مطالبے کو مسترد کر دیا کیونکہ طالبان پاکستان کی بات نہیں سنتے۔اسی طرح پاکستان کیلئے بھارت کو امریکی دفاعی شراکت دارکی حیثیت سے قبول کرنا بھی بعید از قیاس ہے۔ لہذا امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک طرح کا تنائو قائم ہے جس کا سارا کریڈٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے نظرئیے کو جاتا ہے جس کے تحت وہ طاقت کے بل بوتے پراور ہر قیمت پر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل ٹرمپ کی حکمت عملی فرسودہ ہو چکی ہے کیونکہ اس کی بنیاد جنگ عظیم دوم کے سپرطاقت کے گھمنڈ پر موقوف ہے جب امریکہ اپنی بے مثال عسکری و اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر عالمی برتری کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس طاقت نے اپنی چمک کھو دی ہے خصوصاً ویتنام اور کوریامیں اٹھائی جانے والی شرمناک شکست اورگذشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان’ افغانستان’ ایران’ ترکی’ عراق’ شام’ لیبیا’ صومالیہ اور یمن جیسے دیرینہ دوست اوراتحادیوں کو کھو دینے سے ہوا ہے جو سب اسلامی ممالک ہیں اور ان سب کو سانحہ نائن الیون کی آڑ میں صلیبی جنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ زوال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جبکہ آج کے دور میں بین الاقوامی تعلقات کی بنیادسیاسی و اقتصادی تعلقات پر منحصر ہے۔چین اورروس جس کی عمدہ مثال ہیں اورتمام علاقائی طاقتیں ان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہیں۔ عالمی سطح پر ابھرنے والے حقائق کے برعکس صدر ٹرمپ افغانستان میں ناکام جنگ کے دائرے کو طول دے رہے ہیں جوایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے کیونکہ ایک ہی کام کو بار باردہراتے ہوئے مختلف نتائج کی توقع رکھنا نادانی ہے۔ انہوں نے روس کی جانب سے 1989 ء میں افغانستان سے اختیار کی جانے والی پسپائی سے بھی سبق نہیں سیکھا کیونکہ روسی جانتے تھے کہ انہیں شکست ہو چکی تھی اور تصادم کا منطقی تقاضا یہی تھاکہ بروقت پسپائی اختیار کر لی جائے۔اس صحیح فیصلے کے نتیجے میں روس آج افغان طالبان کا دوست ہے۔امریکہ کی جانب سے پسپائی اختیار نہ کرنے کے پیچھے دو عوامل کار فرما ہیں:
امریکہ اسلامی ریاستوں سے نفرت کرتا ہے اور سیاسی اسلامی مملکتیں تو اس کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں ہیں، چاہے وہ صدر مورسی کے زیر قیادت مصر ہو یا آج کی اعتدال پسند اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو۔امریکہ، افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ کر پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان بننے والے اتحاد کو روکنا چاہتا ہے جو ان ممالک کو تزویراتی گہرائی عطا کرے گا اور ان کی قومی سلامتی کا ضامن ہوگا۔
اس اتحاد کے قیام کی تجویز راقم نے 25 اگست1988ء کو فارمیشن کمانڈراور راولپنڈی گیریژن کے سینئر افسران سے خطاب کرتے ہوئے پیش کی تھی کہ کس طرح پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان تزویراتی گہرائی ممکن بنائی جا سکتی ہے جبکہ عین اس وقت تینوں ملکوں میں آزادیء خیال کی نئی صبح طلوع ہو چکی تھی۔ میرے اس نظرئیے کی ہمارے اپنے اور بیرونی دانشوروں نے بہت مخالفت کی اور اسے شکست خوردہ نظریے کانام دیا گیا کہ بھارتی جارحیت کی صورت میں ہم افغانستان میں پناہ لینے کیلئے پسپائی اختیار کریں گے۔جبکہ ہماری مسلح افواج کیلئے ایسا سوچنا بھی محال ہے کیونکہ ہمارا عزم پاکستانی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے جنگ کو بھارتی سرحدوں کے اندر لے جانا ہے۔ لہٰذا جارحانہ دفاع کا نظریہ ہماری عسکری صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا تھا۔اس خطاب میں، میں نے جو کچھ کہا تھا وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ISPR) کے ریکارڈ میں موجود ہے۔متن یہ تھا:
‘‘یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں ہماری قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنے کے فن سے بھی آشنا ہے۔ دوسری اہم بات جو رونما ہو ئی ہے اور ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں پر حریت پسندوں کی جدوجہدآزادی کی کامیابی ہے اوراب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ سپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور اسلامی نظام کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ جمہوریت کی ترویج کی کوششیں بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایرانی قوم نے ایک پڑوسی ملک کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کو جذبہ حریت سے کچل دیا ہے۔ اس طرح اسلامی قوتوں نے اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں جو جمہوری نظام کی مضبوطی کا باعث ہے۔بالفاظ دیگر ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے جو ہمارے لئے اطمینان اور طاقت کا پیغام ہے۔ پاکستان، ایران اور افغانستان تینوں ممالک کیلئے نادر موقع ہے کہ باہم متحد ہوکرآزاد، مستحکم اور پرعزم انداز سے مشترکہ منزل کی جانب بڑھیں۔ ان تینوں ممالک پر مشتمل عالم اسلام کا تزویراتی گہرائی کا نظریہ یہی ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جسے بہر صورت حقیقت کا روپ دھارنا ہے۔تین دہائیوں کے بعد ایک بار ہم پھراسی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں افغانستان کی جدوجہد آزادی فیصلہ کن مراحل میں پہنچ چکی ہے جسے شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس جنگ آزادی کا اصل سرمایہ چارکروڑ پچاس لاکھ پختون ہیں جو ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد پاکستان میں ہیں؛ چالیس فیصد افغانستان میں اوران میں سے دس فیصد پاکستان کے دل یعنی کراچی میں آباد ہیں، جنہوں نے گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی ہے اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سے اپنی آزادی چھین نہیں لیتے اور انشاء اللہ ایسا ضرور ہوکے رہے گا۔ پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ایک ناکام کوشش ہے جس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھارت کو وہاں پر جاسوسی کے مراکز قائم کرنے کی کھلی آزادی دی جس کا اہم ہدف پاکستان تھا۔ انہی جاسوسی مراکز سے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا جو اب تک جاری ہے۔ بھارت کو خطے میں بالادستی دلوانے کی غرض سے افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ قرار دیا گیا اور2005/2014 ء میں بھارت کے ساتھ تزویراتی دفاعی شراکت کے معاہدے طے پائے جس کے اعلان کردہ اہداف میں چین کی ابھرتی ہوئی عسکری و اقتصادی قوت کو روکنا اور محدود کرنا تھا۔لیکن یہ تمام سازشی ہتھکنڈے اس وقت ناکام ہو گئے جب طالبان نے قابض فوجوں کو شکست سے دوچار کر دیا اور پاکستانی فوج اور ائر فورس نے پاکستانی سرحدوں میں پھیلے ہوئے بھارتی دہشت گردی کے مراکز کو تباہ کر دیا۔
امریکہ اور بھارت دونوں ہی کو اندرونی مسائل درپیش ہیں۔ٹرمپ اپنے انداز حکمرانی اور کمزور فیصلہ سازی کی وجہ سے غیر مقبول ترین صدر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جبکہ ان کے مشیر اور پالیسی ساز ایسے جرنیل ہیں جو افغانستان کے خلاف جنگ میں قطعاً ناکام رہے ہیں۔ ایسے مشیروں سے کسی بہتری کی بجائے ناکامی کی ہی توقع کی جا سکتی ہے اور یہی کچھ وہ کر رہے ہیں۔ اور جیسا کہ امریکی دانشور نکولس کرسٹوف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ناقص قومی صحت اور ماحولیات کی پالیسی کے سبب بہت جلد امریکہ ایک قومی المیے سے دوچار ہونے والا ہے جبکہ قوم مہلک مرض کینسر’ ذہنی انحطاط اور نامردی کا شکار ہوجائے گی۔دوسری جانب بھارت کو سیکولر اور قومیت پرست عناصر کے درمیان تصادم کی کیفیت کا سامنا ہے۔ تاریخی حوالوں سے بھارت میں ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں اور اس طوائف الملوکی کے سبب بھارت کی مرکزیت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
آج بھارت کیلئے بڑا خطرہ یہی ہے کیونکہ ملک میں جاری ایک درجن سے زیادہ بغاوتیں اس توڑ پھوڑ کو یقینی بنادیں گی۔ پاکستان کو گذشتہ پندرہ سالوں سے کثیر الجہتی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ حکمرانی اورفیصلہ سازی کے عمل کی کمزوری تمام خرابی کا باعث ہے لیکن ان خرابیوں سے قطع نظرپاکستانی قوم کی نظریں 2018ء کے انتخابات پر ہیں جن سے ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے مناسب مقام حاصل ہوگاکیونکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے سیاسی و اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ یہ ایسا طاقتور رحجان ہے جو پورے خطے کوبغیر جنگ لڑے‘ پرامن فضائوں میں سانس لینے کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔