پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے مہنگائی کا نیا طوفان برپا کر دیا ہے کیونکہ پٹرول ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس پر ہر استعمال کی چیز کی عوام تک ترسیل و رسد کا دارومدار ہے۔ علاوہ ازیں سفری سہولیات کی قیمتں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ ایک طرح کا مزید منی بجٹ ہے جسے غیراعلانیہ کہا جا سکتا ہے۔ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے سے رہائی دلائی جائے۔ ایک تو پہلے ہی مہنگائی نے عوام کی کمر دوہری کر رکھی ہے‘ اس پر مستزاد یہ پٹرول کی قیمتوں میںاضافہ‘ عوام جائے تو کہاں جائے۔ شکایت کرے تو کس سے کرے؟ مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ رمضان سے شروع ہواتھا جس میں روزبروز اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میاں نوازشریف کی برطرفی کے بعد مسلم لیگ (ن) حکومت مشکلات میں گھر چکی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عوام کی مشکلات کو سرے سے نظرانداز ہی کر دیا جائے۔ کیا وزیراعظم شاہدخاقان عباس کو عوامی مشکلات کے بارے میں کوئی بندہ یعنی وزیر‘ مشیر آگاہ کرنے والا نہیں جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر وزیراعظم ہی نے دستخط کئے ہیں۔ کیا ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ دستخط کرنے سے پہلے سمری پیش کرنے والوں سے پوچھتے کہ یہ اضافہ کیوں کیا جارہا ہے؟ حالانکہ ہم نے سنا ہے کہ خاقان صاحب خود بہت سادہ مزاج آدمی ہیں اور عوام کے دُکھ درد میں شامل ہونے والے شخص ہیں۔ وزیراعظم کو … اوگرا والوں سے پوچھنا چاہئے اور حالیہ اضافہ واپس لے لینا چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ شدید پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ روزگار کی ویسے ہی کمی ہے۔ اس پر مہنگائی کا کوہِ گراں۔ جہاں تک اشیائے خوردونوش کا تعلق ہے تو غریب آدمی اب دال اور سبزی بھی نہیں کھا سکتا۔ بے چارہ سارا دن مزدوری کرکے جو چار پیسے شام کو کماتا ہے‘ وہ دو وقت کی روٹی میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اگلے دن کے مسائل اس کے سامنے اژدھوں کی طرح منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم فوراً پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نہ صرف واپس لیں بلکہ اس میں مزید کمی کی کوشش بھی کریں۔ دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں بھی پچھلے ماہ اضافہ کیاگیا تھا جبکہ خبر یہ تھی کہ بجلی کی قیمتوں میں دو روپے یونٹ تک کمی کی جا رہی ہے‘ لیکن عمل اس کے برعکس ہوا ہے۔
دوسرا کام یہ ضروری ہے کہ ملک کی زراعت میں اضافہ اب ناگزیر ہے کیونکہ ہمیں ٹماٹر جیسی عام سبزی بھی ایران اور بھارت سے درآمد کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ٹماٹر کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو ہے۔
عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ہر جماعت نے الیکشن مہم جوئی شروع کر دی ہے جبکہ میاں نوازشریف نیب کے ریفرنسز میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ عمران خان کو سوائے جلسے‘ جلوس‘ ریلیوں اور دھرنوں کے کوئی کام نہیں۔ عمران خان نے گزشتہ ساڑھے چار سال کے پی کے میں ترقیاتی کام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ صرف دھرنے دیئے‘ جلسے کئے‘ دوسروں کی پکڑیاں اُچھالیں۔ اب آصف زرداری بھی میاں نوازشریف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں حالانکہ انہیں یہ تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کیلئے عمران خان اور نیب کافی ہیں۔ میاں نوازشریف اس وقت حقیقتاً بہت مشکل حالات سے برسرپیکار ہیں۔ ایک طرف ان کی اہلیہ کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما ہیں اور دوسری طرف نوازشریف نیب کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں‘ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ میاں نوازشریف کی مقبولیت میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی مقبولیت سے خوفزدہ لوگوں نے میاں نوازشریف کو کرپشن الزامات میں سزا دلوانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے مطابق میاں نوازشریف پر نہ تو کرپشن ثابت ہو سکی اور نہ ہی عہدے کا غلط استعمال۔ پھر چاروناچار اقامہ کا سہارا لینا پڑا اور اسی کی بنیاد پر نوازشریف کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا‘ لیکن عوام نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا۔ اب اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے وہی لوگ پھر خائف ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح نوازشریف کو سیاست سے ہی آئوٹ کر دیا جائے‘ لیکن فی الحال اس کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آرہے کیونکہ نوازشریف احتساب کمشن میں پیش ہونے کیلئے پھر واپس آگئے ہیں۔ کبھی نوازشریف کے مخالفین مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ کی افواہیں اڑاتے ہیں‘ کبھی فارورڈ بلاک کی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ کبھی دونوں بھائیوں میں اختلافات کی چہ میگوئیاں کرتے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام سینئر اور جونیئر رہنمائوں کو اور اراکین کو مکڑیوں کے گٹھے کی طرح متحد اور متفق رہنا چاہئے کیونکہ اتحاد میں بڑی برکت ہے۔ نفاق سے قومیں برباد ہو جاتی ہیں اور عوام کو بھی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے سپورٹرز ہونے سے پہلے خود کو پاکستانی اور مسلمان بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے۔ نظریاتی اختلافات کا مطلب ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنا یا جانی و مالی نقصان پہنچانا نہیں ہوتا۔ سگے بھائیوں میں بھی نظریاتی اختلافات ہوتا ہے‘ لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کی مدد و تعاون میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ ایک قوم بن کر رہیں۔