بھیک مانگنا ایک حد تک پیشہ بن چکا ہے۔ غریب اور ضرورت مند اور پیشہ ور کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے جس سے جو حقیقی ضرورت مند ہے نظرانداز ہو رہا ہے حقائق کا جائزہ لیں تو کوئی بھی شخص کتنا ہی ضرورت مند ہو اور اس حد تک کہ اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ ہو اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائے۔ لوگ رشتہ دار‘ محلے داروں میں آج بھی ایسے ہیں جو اس کو غلہ فراہم کر دیتے ہیں۔ کھیت سے سبزیاں دے دیتے ہیں اور اگر وہ کام کرنے والا ہو تو وہ محنت مشقت سے روزی روٹی کا بندوبست کر لیتا ہے جو نیک نیتی سے کام کر رہا ہو تو اسے مقررہ مزدوری سے بھی زیادہ دے دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ گھر میں آسائشوں سے مستفید تو نہیں ہو رہا لیکن دو وقت کا کھانا بہرطور اسے مل جاتا ہے۔ گھر میں شدید بیماری ہو‘ معذوری ہو تو بھی صاحب ثروت لوگ ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ادارے موجود ہیں‘ سرکاری یا غیر سرکاری تنظیمیں ایسے لوگوں کے علاج معالجے کی غرض سے ہر وقت مدد کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ بیت المال اور زکوٰۃ کمیٹیوں سے مالی امداد کا کام جاری رہتا ہے لیکن آپ ذرا اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں تو بازاروں‘ مارکیٹوں‘ بس اڈوں‘ ہسپتالوں میں یہ پیشہ ور لوگ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ فروٹ کی ریڑھی پر رکیں تو چھوٹے بچے اور خواتین اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ موسم جتنا بھی گرم ہو یا سرد ہو آدھمکتے ہیں۔ انتہائی ضعیف گداگروں کو بھی دیکھا ہے جو سخت موسموں کی پروا کئے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کالم میں اس عنوان پر کچھ حقائق لکھے تھے جس میں سعودی عرب کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں تفصیلات دی گئی تھیں جن کے سرغنہ ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس گروہ کے لوگ مکہ اور مدینہ کے مختلف اہم پوائنٹس پر رکتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں اور پھر وہاں سے ایران چلے جاتے ہیں۔ روحانی موسموں کے ساتھ چلتے ہیں جہاں زیارتوں پر رش زیادہ ہو گا وہ گروہ بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس خاصا سرمایہ جمع ہے۔ ان کا رہن سہن اور پہناوے تو غریبانہ ضرور ہیں لیکن ان کے مشاغل امیرانہ ہیں۔ اب کیا کہا جائے ان لوگوں کے بارے میں جبکہ ہمارے دین میں ضرورت مند کی مدد کرنا اہم قرار دیا ہے۔ صوفیا ء کرام نے کچھ نہ کچھ دینے کا ارشاد فرمایا ہے اور فرماتے ہیں کہ ایسے انسان پر اﷲ کا خاص فضل و کرم ہے جس کے پاس کوئی ضرورت مند آتا ہے۔ اگر اسی اصول پر عمل کیا جائے تو آپ لوگ شہر میں کسی جگہ جا نہیں سکتے جہاں رکے آپ کی گاڑی گداگروں کے حصار میں ہو گی۔ اپنے گھروں کو دیکھ لیں‘ گھروں کی کال بیل بجتی ہے باہر جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی ضرورت مند ہوگا‘ اگر کال بیل بند ہو تو دروازہ پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ چند لوگوں نے جس میں بزرگ‘ بچے اور خواتین شامل ہیں وہ طبع شدہ دعائیں‘ کلمہ طیبہ‘ درود شریف مختلف تحریروں میں برائے فروخت مارکیٹوں میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے برے میں بھی کہا گیا کہ اگر ضرورت نہ بھی ہو تو ایسے شخص سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیا کریں۔ سب باتیں بجا! لیکن ان پیشہ وروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پوش علاقے میں ایک نوجوان مرد‘ ایک خاتون اور ایک زخمی بچے کو لئے کئی دن ہر آنے جانے والے سے بچے کے علاج کے لئے بھیک مانگ رہے تھے چند دنوں میں بھانڈہ پھوٹ گیا اور جب بچے کی پٹیاں کھولی گئیں تو اس بچے کے جسم کے کسی حصہ پر بھی کوئی زخم نہ تھا۔ ایسے لوگوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے تو پولیس بھی انہیں بوجھ سمجھتے ہوئے شکایت کنندہ کے جانے کے بعد کچھ دے دلا کے گھر جانے کی اجازت دے دیتی ہے۔
عیدین پر ایسے پیشہ ور بھکاریوں کا رش بڑھ جاتا ہے اور پھر ہر جمعہ تقریباً ہر مسجد میں ایک ضرورت مند نماز کے بعد اٹھتا ہے اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتا ہے اور اپنی بات کرنے کے بعد وہ مسجد کے دروازے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے چھوٹا بچہ ساتھ ہو تو ٹھیک وگرنہ اپنے کسی مریض کے علاج معالجہ کے کاغذات اور ایکسرے اس کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جو ہر جمعہ پر آتے ہیں وہ اس ضرورت مند سے زیادہ اور مسجد آنے میں ریگولر ہوتے ہیں۔ حکومتی ادارے موجود ہیں‘ سوشل ویلفیئر کے مختلف ادارے موجود ہیں جو ایسے لوگوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کے علاج معالجہ کے لئے مدد کرتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں سے ایسے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کی جا سکتی ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے۔ بڑے شہروں میں ایسے اداروں کی نقل و حرکت شاید تیز ہوتی ہے لیکن چھوٹے شہروں میں ایسے ادارے صرف کاغذوں میں نظر آتے ہیں جو ایسے پیشہ ور بھکاریوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
ہم نے بھی لفظ بھکاری اور گداگر کو صرف چند سکوں کے حصول تک محدود کر دیا ہے وگرنہ علاقے کے چودھری‘ خان اور ملک کے پاس آپ مسائل کے لئے یا پھر اپنے بچوں کی ملازمت کے لئے جاتے ہیں تو وہ بھی گداگری ہے۔ گلیوں‘ نالیوں اور بجلی‘ پانی کے مسائل جو ہمارا حق ہیں وہ بھی ہمیں خیرات میں دی جاتی ہیں اور ہم لوگ معزز گداگر اور بھکاری بنے ہوتے ہیں۔ کسی سردار کے پاس جانے سے پہلے اپنی انا اور خودی کو بیچنا پڑتا ہے جو گلیوں‘ بازاروں‘ چوک چوراہوں میں بے حس گداگروں اور بھکاریوں سے زیادہ مشکل تکلیف اور اذیت ناک ہے۔ ایسے شرفا اور ضرورت مندوں کے لئے علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا شاید ایسے طبقے کے لئے ہی پیغام تھا۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر