احتساب کی کڑوی گولی نگلنی ہو گی

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا شمار کرپٹ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے پچھلے اکہتر سالوں سے ایک ہی رٹ سنائی دیتی ہے۔ احتساب اور وہ بھی سب کا۔ مگر کب؟ ہر نئی آنے والی حکومت اپنی پیش رو حکومت کے احتساب کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ کیا کسی کا کوئی احتساب ہوا؟ کسی کو کوئی خاطر خواہ سزا ہوئی؟ ملک کا خاطر خواہ پیسہ اس مد میں خرچ ہوجاتا ہے۔ عدالتوں کا وقت الگ برباد ہوتا ہے۔ قوم کو الگ سے بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ قوم کو یہ نوید سنا دی جاتی ہے کہ اب کی بار سب کا احتساب ہوگا اور اتنا پیسہ واپس قومی خزانے میں آئے گا کہ ملک میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ دودھ کی نہریں تو نہ بہہ سکیں البتہ ملک مزیدمقروض ہو گیا اور گرے لسٹ میں آ گیا۔
نئی اسمبلی کی شروعات کیا ہوئیں کہ آنکھیں کھل گئیں۔ بائیس کروڑ عوام نئی امیدیں لے کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اپنے ہاتھوں سے منتخب کیے گئے ممبران کی حلف برداری، سپیکر سازی اور ڈپٹی سپیکر سازی کی تقریبات دیکھنے میں محو ہوگئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک دم سے سابق سپیکر ایاز صادق نے دانستہ یا پھر نادانستہ طور پر ایک بلنڈر کر دیا۔ سابق ڈپٹی سپیکر کا مائیک آن کر دیا۔ سب ممبران بشمول بائیس کروڑ عوام کے ان کی طرف متوجہ ہوئے کہ شاید وہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہیں گے۔ مگراس سوچ کے بالکل برعکس ہوا۔ گویا سب کو ایسے محسوس ہوا جیسے یہ سب کچھ دانستہ طور پر کیا گیا۔ نئی آنے والی اکثریت کو جعلی مینڈیٹ والی اکثریت کہہ دیا۔ اپوزیشن کو تو بہانا چاہیے تھا۔ تو گویا جلتی پر تیل کا کام کردیا۔ یعنی شروعات کو ہی بدمزا کردیا۔ ٹھیک اگلے ہی سیشن میں وزیراعظم کا انتخاب تھا۔ وہی پہلے والی ایکسر سائز کو پھر دھرایا گیا۔ نئے منتخب وزیراعظم کے ڈائیس کے سامنے وہ ہلہ گلہ کیا گیا جسے تاریخ میں کبھی بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا۔ نئے منتخب وزیراعظم کو روایت سے ہٹ کہ مجبوراًیہ کہنا پڑا کہ میں احتساب کی بہت سخت روایت ڈالوں گا۔ کسی چور اچکے کو نہیں چھوڑوں گا۔ جس کا میڈیا پر شور اٹھا کہ کم از کم پہلی تقریرمیں تو اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے تھا۔ خواہ مخواہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔
بھلے مانسو! یہ بات وہ شخص کر رہا ہے جس نے پورے بائیس سال اسی حساب لگانے کی جدوجہد میں گزار دیے کہ ہرآنے والی حکومتوں نے چوری کی ہے۔ وسائل کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ ادارے اپنا وجود کھو بیٹھے۔ جی ٹی ایس، پی آئی اے، پاکستان سٹیل مل، پاکستان ریلوے، واپڈہ، ٹورازم، ہسپتال بد دیانتی کی انتہا دیکھیں جس مقصد کے لیے قرض لیا گیا۔ وہاں ایک پائی بھی صرف نہ کی۔ا للوں تللوں میں اڑا دیا گیا‘نیا وزیراعظم یہ نعرہ بلند نہ کرتا تو کیا کرتا؟ کیا ان کو شاباش دیتا کہ تم نے جو کچھ کیا اس پر تمھیں انعام دیا جائے۔ ایوان میں اتنا شور تھا کہ آواز تک سجھائی نہیں دے رہی تھی کہ کہا کیا جارہا ہے۔ اربوں روپے خرچ کرکے یہ اودھم مچانے اور بد مزگی کا سین دیکھنا تھا۔ پورے بائیس کروڑ عوام کا مذاق اڑایا گیا جو ٹی وی اورریڈیو پر براہِ راست دیکھ اور سن رہے تھے۔ میری طرح ہر شخص یہ سین دیکھ کر شرمندہ بھی تھا اور پریشان بھی۔ کیا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کرنا؟ کیا یہ لوٹ کا مال تھا یا پھر ان کے اجداد نے ان کے لیے چھوڑا تھا؟ جتنا بڑا لٹیرا اتنا ہی معزز۔ اب تو کان پک گئے ہیں یہ سنتے سنتے کہ بلوچستان سے مشتاق رئیسانی 84 ارب، سندھ سے شرجیل میمن 426ارب، ڈاکٹر عاصم 480ارب، احد چیمہ 1850ارب، میاں نواز شریف 340ارب، فریال تالپور اور آصف علی زرداری کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں اربوں کے قرضے معاف کروائے ہوئے ہیں۔ جس کی ایک زندہ و جاوید مثال محترمہ فہمیدہ مرزا ہیں۔ انہوں 574کروڑ کا قرضہ معاف کروایا ہوا ہے۔ ریاست کا پیسہ بجائے عوام پر خرچ کرنے کے اپنی جیبوں میں ڈال دیا۔ عام عوام کے لیے تو بس ایک ہی خبر جو ہمیشہ ٹی وی چینلز پر بڑے تواتر کے ساتھ چلتی رہتی ہے کہ بھوک اور پیاس سے ہزاروں تھری بچے، عورتیں، پرندے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ ٹھیک اسی طرح چولستان کا صحرا ہزاروں بچوں، عورتوں اور مویشیوں کو نگل گیا۔ اور تو اور چولستان میں پانی کے پراجیکٹ کے لیے دستیاب وسائل جو کروڑوں روپوں میں تھے وہاں کی اتھارٹی ڈکار گئی۔ وہ کیوں پیچھے رہتے۔ جب لوٹ کا بازار گرم ہو تو پھر کون دیکھتا ہے کہ یہ جائز ہے یا نہیں۔ گنگا نہانے کو کس کا دل نہیں کرتا۔ ضمیر جب مردہ ہو جائیں تو حلال حرام کی تمیز مٹ جایا کرتی ہے۔ پھر کوئی تو اٹھے گا موسیٰ فرعون کے گھر سے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی دفعہ سب چوروں کا محاسبہ کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔ قوم اب مزید لولی پاپ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب سمے بدل رہا ہے۔ نیکی اور بدی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اچھے برے کی تمیز کرنی ہوگی۔ ادارے اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں اور عوامی نمائندے بھی اپنا قبلہ درست کر لیں۔ روز روز بیوقوف نہیں بنا جا سکتا اور نہ ہی سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اب ہر شخص کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنا ہوگا۔ اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ ہر شخص تہیہ کر لے کہ اب نو کرپشن۔ اپنے اپنے جائز وسائل سے گزارا کرنا ہوگا۔ چادر دیکھ کے پاؤں پھیلانا ہوں گے۔ بقا اسی میں ہے۔ چیز بننے میں ضرور وقت لیتی ہے مگر تباہ و برباد ہونے میں ایک لمحہ بھی نہیں۔ دشمن دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اب کی بار بھی حالات کا صحیح ادراک نہ کر سکے تو انجام اچھا نہیں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن