وطن عزیز میں گزشتہ 70 برسوں کے دوران بے شمار تحریکیں چلی ہیں، سیاسی بھی، مذہبی بھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عمومی طور پر یہی بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر، خاص طور پر جس مسئلہ کا تعلق عوام الناس کے دل اور جذبات کے ساتھ ہو، تحریک کا آغاز کرنا آسان ہوتا ہے۔ لوگ اپنی قیادت کے حکم پر فوراً میدان میں آ جاتے ہیں۔ مگر جب تحریک کا آغاز ہو جائے تو پھر وہ منظرسامنے آنے لگتے ہیں جن کو کسی بھی تحریک کے فریقین اور قیادت نے اندازہ بھی نہیں لگایا ہوتا۔ تحریکوں کی اپنی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ سیاسی حوالے سے شروع ہونے والی تحریکوں کے بارے میں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بعض سیاسی کارکن ہر بات کو روا رکھتے ہیں لیکن جو تحریکیں پاکیزہ جذبات اور خالص مذہبی عقیدت کے تحت چلائی جائیں ان سے عوام ان تمام باتوں کی توقع رکھتے ہیں جن کی تعلیم علما کرام رات دن اپنی تقریروں کے ذریعے دیتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے حوالے سے بعض دینی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا۔ دھرنے بھی دئیے۔ لیکن سوشل میڈیا پر متعدد ایسے مناظر دکھائے گئے جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانام گرامی بھی لیا جا رہا تھا اور ساتھ ہی عام لوگوں کی موٹر سائیکلیں، دکانیں ، گاڑیاں اور سرکاری املاک تک بھی جلائی جا رہی تھیں۔ ” چھوٹے بچے کی کیلوںکی اس گدھا گاڑی کی وڈیو کوتو بہت عام کیا گیا جس میں مظاہرین کیلے اٹھا اٹھا کر کھاتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ مذاقیہ گفتگو بھی ہو رہی تھی۔ ایسی باتوں سے عوام کی صفوں میں تحریک اوراس کی قیادت کے حوالے سے بہت منفی پیغام گیا۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ جب ایسی تحریکیں چلتی ہیں تو بعض مخالفین اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت تحریک کے کارکنوں میں شامل ہو کر ایسی حرکات کریں جس سے کوئی تحریک یا اس کی قیادت بدنام ہو۔ تو پھر کیا تحریک کا آغاز کرنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جب کبھی وہ کسی تحریک کا اعلان کریں، دھرنا دیں جو کہ جمہوری معاشرے میں ہر شہری کا حق ہے تو پھر وہ اپنے کارکنوں کو بھی تربیت دیں کہ انہوں نے کن حدود و قیود کے اندر رہنا ہے۔ اس طرح اپنے اردگرد نظر رکھیں کہ کوئی اور تو ان کی صفوں میں نہیں گھس گیا۔ خود تحریک کی قیادت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تقاریر کا ہدف ان لوگوں کونہ بنائیں جن کا کسی مسئلہ سے تعلق ہی نہ ہو۔ اس طرح خود ان کاموقف کمزور ہو جاتا ہے اور عوام تک یہ تاثر جاتا ہے کہ وہ کسی ایک مسئلہ کے بہانے کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت جذباتی مظاہرے ہوتے ہیں لیکن مظاہرین اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ شہریوں میں سے کسی بھی ایسے شخص کو، اس کی جان مال اور عزت کو نقصان نہ پہنچے جس کا مظاہرے سے متعلق مسئلہ سے تعلق نہ ہو۔ پھر ہسپتالوں کو خاص طور پر تحفظ دیا جاتا ہے۔ سرکاری املاک کواپنی املاک سمجھ کر حفاظت کی جاتی ہے مگر پاکستان جیسے ملکوں میں بدقسمتی سے ہمارے راہنما ان باتوں کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے اور پھر تحریک چلانے کے بعد تو جیسے ان کا اپنے کارکنوں پر کنٹرول ہی نہیں رہتا۔ اب حالیہ دوتین روز میں بھی ماضی کی تحریکوں کی طرح نہ عام شہریوں کی املاک موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور دکانوں کو بخشا گیا اور نہ ہسپتالوں کے لئے راستے دئیے گئے۔ پاکستان عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ملک ہے۔ اللہ کی نعمت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہماری تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے راہنما اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے یا ان کے پیروکاروں کے کسی فعل سے کسی بے گناہ عاشق رسول کا دل نہ دکھے۔ اب جبکہ صورتحال نارمل ہو رہی ہے تو حکومت کے لئے ضروری ہے کہ ان بے گناہ لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کی سبیل کرے جن کا نقصان ہوا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تمام مذہبی اور سیاسی قیادت کسی متفقہ ایسے ضابطہ اخلاق کے لئے جمع ہو جس کے تحت کسی بھی احتجاج، دھرنے ا ور سڑکوں پر نکلنے کی صورت میں حدود و قیود متعین ہوں تاکہ تکلیف دہ روایات کے خاتمے کا آغازہو سکے۔
سیاسی اورمذہبی قائدین اورکارکنوں سے گزارش
Nov 04, 2018