جمہوریت کی ٹھیکیدار حزب اختلاف اور انتخابات میں شکست کھانے والے نام نہاد سیاستدان اور بیشتر ٹی وی کے تحریر نگار عمران خان کے چالیس روز کے دورانیہ اقتدار پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ تنقید یقینا تعمیر کا باعث بنتی ہے مگر یہ دیہاڑی دار جمہوریت کے بنیادی تقاضوں اور حقائق سے نابلد ہیں اور ان کا مقصد عمران خان میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ عمران یقینا قصوروار ہے کیونکہ عوام نے اسے صاحب اقتدار بنایا۔جمہوریت کے متعلق ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ Democracy is a Habit of mind اختلاف رائے‘ حکمران کا احتساب بذریعہ عدالت یا انتخاب جمہوریت کے لازمی جز ہیں اور جیتنے والے کو برداشت کیا جاتا ہے۔ سیاسی لیڈر ایک محدود مدت کیلئے قیادت کیلئے نمودار ہوتا ہے۔ پھر دوسرے اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ کامیاب جمہوریتوں والے ممالک امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ ہندوستان اور جاپان میں تو یہی سیاسی سلیقہ ہے۔ پاکستان میں سب سیاسی خرابیاں موروثی اقتدار کی وجہ سے ہیں۔
سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوس اور تجزیہ نگاروں کی جمہوریت کے بنیادی تقاضوں سے لاعلمی اور اپنی دکان بڑھانے کی جاری کوشش نے مجھے کچھ کڑوی باتیں کرنے کا حوصلہ دیا۔ میں آجکل ایک کتاب The Presidents Club پڑھ رہا ہوں جو امریکی صدور کے بارے میں ایک تاریخ ہے۔ یہ کلب یوں وجود میں آئی کہ انتخاب جیت کر وائٹ ہاﺅس میں آنے والے صدر نے یہ محسوس کیا کہ امریکی ریاست کے حقیقی حالات سے سب سے زیادہ بے خبر انتخاب جیتنے والے صدر خود ہوتا ہے اقتدار میں آنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ اصل حالات اس کے علم سے بہت مختلف ہیں اور مملکت کے پیچیدہ اور الجھے ہوئے حالات سے نمٹنے کیلئے ایسے ذرائع سے رہنمائی چاہئے جسے ان حالات کا ذاتی تجربہ اور اپنے کوئی سیاسی عزائم نہ ہوں۔ سیاسی وابستگیاں صرف اختلاف اور اظہار رائے کیلئے ہوتی ہیں۔ انتخاب کے بعد جیتنے والے صدر اور سابق صدر صرف امریکی ہوتے ہیں اور کوئی سابق صدر دوبارہ صدر نہیں بن سکتا۔
سابق صدر اپنی مخلص رائے سے نئے صدر کو آگاہ کرتا ہے اور اس کے تجربہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک بنیادی اصول جس کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے‘ وہ امریکی قوم کا اتحاد ہے۔ گفتگو ہر عمل سے اس کو ٹھیس لگنے سے بچایا جاتا ہے۔ (Nixon) ناکسن اور (Kenedy) کینیڈی کے انتخابی معرکہ میں گو کینیڈی جیت گیا مگر چار بڑی ریاستوں میں انتخابی دھاندلی کے واضح ثبوت تھے۔ صدر کلب کے ممبران سابق صدر کی وساطت سے یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا کہ کہیں امریکی قوم دو حصوں میںنہ بٹ جائے اور امریکی اتحاد کو نقصان پہنچے۔
عمران خان کو تو صرف ابھی اقتدار میں چالیس دن ہوئے اور آہستہ آہستہ سابقہ حکمرانوں کی دس سالہ دور کی غلط کاریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بہت سارے انکشافات ہو رہے ہیں اور پتہ چلا ہے کہ مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ شریف برادران تو کبھی اسمبلیوں میں جاتے ہی نہیں تھے اور اپنے آپ کو کسی عمل کا جوابدہ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ دوسری طرف پڑھے لکھے بیرسٹر جناب اعتزاز احسن کا جمہوریت کے اصولوں سے لاعلمی والے بیان کہ حزب اختلاف کی اولین ترجیح حزب اقتدار کو گرانا ہوتا ہے۔ یقینا قابل مذمت ہیں۔
ملک کےابتر مالی حالات نہ تو ایک دن میں بگڑتے ہیں نہ ہی چند دنوں میں سدھر سکتے ہیں۔ ان میں ایک تسلسل Continuity ہوتا ہے جسے پچھے پانچ سالوں میں قرضہ تمام حدیں عبور کر گیا۔ ظاہر ہے ایسا ہونا ہی تھا جب اسحاق ڈار جیسے وزیرخزانہ ہوں اور شاہ خرچیوں کا کوئی رونے والا نہ ہو۔ دبئی اور انگلستان و دیگر ممالک میں حکمرانوں کی ناقابل یقین جائیدادیں بنیں۔ ان حالات کا عمران ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا تو عوام کو حالات سے آگاہ کر رہا ہے اور اس کے حل کیلئے ہر کوشش سے نبردآزما ہے۔ ہمارے سابق حکمرانوںکو حزب اختلاف کو پاکستان کے مفاد میں ذمہ دارانہ اور مدد کا رویہ اپنانا چاہئے۔