الحمد اللہ پاکستان کو اس کے جغرافیائی وسائل اور حیثیت نے خطّہ کے با اثر ممالک میں سے ایک بنا دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف پانی کے وسائل میں عدم مساوات اور خود مختاری کے معاملے میں صورتِ حال اس کے بر عکس ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک کو در پیش خطرات میں پانی کی شدید کمی کا بحران سرِ فہرست ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق 2025ءتک پاکستان پینے کے ساتھ ساتھ ذرائع آبپاشی کے لیے بھی پانی کے بحران کا سامنا کر سکتا ہے۔ اگر اس صورتحال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 2040ءتک تمام زیرِ کاشت اراضی بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال میں دو پہلو بہت اہم ہیں۔ پہلا ہمارا اندرونی بندوبست اور دوسرا بھارت کا پاکستان مخالف ایجنڈا، بیک وقت ان دونوں پہلوﺅں سے خوش اسلوبی اور دانشمندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملے کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہو گا۔اس تمام صورتِ حال کا سہرہ دو ممالک کی حدود متعین کرنے والے ریڈ کلف کمیشن کے سر ہے۔ آزادی کے وقت تمام چھ بڑے دریاﺅں کا منبع ہندوستان تھا۔ یعنی بھارت جب چاہتا پاکستان کی طرف پانی کے بہاﺅ کو روک سکتا تھا۔ تکنیکی اعتبار سے آبی وسائل میں بھارت بالائی اور پاکستان زیریں ریاست بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک کے مداخلت کر کے ثالثی کرنے تک دونوں ممالک میں پانی کی تقسیم کا تنازعہ جاری رہا۔ طویل غور و خوض کے بعد 1960ءمیںپنڈت جواہر لعل نہرو اور جنرل ایوب خان سندھ طاس معاہدہ پر متفق ہو گئے۔ اس معاہدہ کے تحت مشرقی دریا ، راوی، ستلج اور بیاس ہندوستان جبکہ مغربی دریا جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے حصے میں آگئے۔ 1960ءسے 1999ءتک یہ معاہدہ مو¿ثر رہا لیکن جب یہ معاہدہ آبی سیاست کی نظر ہوا تو بھارت نے اسے سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس معاہدہ کی پہلی خلاف ورزی 1999ءمیں بگلیہار ڈیم کی تعمیر کی صورت میں سامنے آئی اس حوالے سے انڈس واٹر کمیشن کے طویل مذاکرات بھی بے سود ثابت ہوئے۔ 2016ءمیں نریندر مودی نے انڈس واٹر کمیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کے سود مند نکات پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مودی نے تبصرہ کیا کہ ”پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے“۔
حالیہ برسوں میں ہندوستان نے کشن گنگا ، ساولکوٹ اور ریتل ڈیم تعمیر کیے جنہوں نے مل کر چناب اور جہلم میں پانی کی فراہمی کو متاثر کیا۔ حالانکہ یہ اقدامات مندرجہ ذیل عالمی کنونشنز کی صریحاً خلاف ورزی تھے۔
1۔اقوامِ متحدہ کا چارٹر
2۔عالمی انسانی حقوق کا اعلامیہ
3۔شہری اور سیاسی انسانی حقوق کا معاہدہ
4۔اقوامِ متحدہ کا آبی وسائل کنونشن
5۔اعلامیہئِ سٹاک ہوم
پاکستانی دریاﺅں کی آبی خلاف ورزیوں کے علاوہ بھارت نے راوی ستلج اور بیاس میں بھی پانی میں رکاوٹ ڈالی۔ یہ اضافی پانی بھارت بجلی کی پیداوار اور زرعی استعمال میں لا رہا ہے۔ بھارت نے حکمتِ عملی کے تحت اس پانی کا بہاﺅ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کی طرف موڑ دیا۔ بھارت کا یہ اقدام پاکستانی پنجاب کی زراعت کو تباہ اور زیرِ زمین پانی کی سطح کو کم کرنے کا باعث بنا۔ 2018ءتک ورلڈ بینک پاکستان کے تحفظات کے ازالے میں افسوس ناک حد تک ناکام رہا ہے۔ جبکہ اقوامِ متحدہ بھی اس ضمن میں بھارت پر مو¿ثر دباﺅ ڈالنے میں ناکام ہے۔ بھارت پر سفارتی دباﺅ بڑھانے ،اور اس بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان حکمتِ عملی وضع کرنے میں تاحال ناکا م رہا ہے۔ آبی وسائل اور ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ پاکستان میں سیاست کی نذر ہوچکا ہے۔ کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیم منصوبوں کو بار بار متنازعہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ڈیم کی تعمیر کے لیے اندرون اور بیرون ملک سے فنڈ جمع کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ معاشی ماہرین کے نزدیک قومی مفاد کی ایسی چندہ مہم کی مثال دیگر اقوام میں سننے کو نہیں ملتی۔ اب وقت بتائے گا کہ یہ مہم کس قدر سود مند ثابت ہوتی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ نئی آنے والی موجودہ حکومت نے آنے والے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ اور مالی منصوبہ تیار کر لیاہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پانی کا استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا صارف ہے۔ پاکستان اپنے علاقوں میں آنے والے پانی کا صرف 7فیصداستعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ بھارت 30فیصد پانی زیرِ استعمال لانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسی طرح تقریباً 10ملین ایکڑ فٹ پانی بھارت روک لیتا ہے، مجموعی طور پر یہ قابلِ تشویش صورتِ حال ہے۔
قانونی جنگ لڑنے کے لیے عالمی برادری میں اس معاملہ کو مو¿ثر انداز میں اٹھایا جا نا چاہیے لیکن ظاہر ہے اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں ہے۔آخر میں ناپسندیدہ ہی سہی لیکن اگر یہ بحران اندرونی یا بیرونی کوششوں سے حل نہیں ہوتا تو آخری حل جنگ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ کیا عالمی برادری دو ایٹمی طاقتوں کے مابین ایٹمی جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟
پانی کا بحران ، بد سے بد تر کی طرف
Nov 04, 2018