ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں دہلی سرکار کی جارحیت سے ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے، اب جموں و لداخ کو دہلی سرکار کے زیر نگیں علیحدہ علیحدہ یونین ٹیرٹریز بنایا جا چکا ہے۔ اسے افسوس ناک امر ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ ، امریکہ و انسانی حقوق کے دیگر نام نہاد چیمپئنز کی جانب سے وقتاً فوقتاً مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار تو کیا جاتا ہے مگر اپنے سطحی اور وقتی مفادات کی خاطر یہ ممالک و ادارے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔
دوسری جانب گذشتہ ہفتے مہاراشٹر کے انتخابات میں BJP نے فتح حاصل کر کے حکومت قائم کر لی، ہریانہ میں کانگرس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مگر حکومت BJP کی ہی ہے۔ یوں بظاہر آنے والے دنوں میں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگرس اپنی معمولی سبقت کھو سکتی ہے اور ان دونوں صوبوں میں بھی BJP کا اقتدار قائم ہو نے کے امکانات خاصے روشن ہیں ۔ کرناٹک میں ایک ڈیڑھ پہلے ہی کانگرس اقتدار سے باہر ہو چکی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی لوک سبھا کی تقریباً نصف نشستیں جیت کر بی جے پی خاصی مضبوط پوزیشن میں ہے اور لگاتار کئی ممبران پارلیمنٹ ممتا بینرجی کا ساتھ چھوڑ کر BJP میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں، یوں بظاہر آئندہ 6 سے 8 ماہ کے اندر غالباً BJP اس صوبے میں بھی برسر اقتدار آ سکتی ہے ۔ بہار میں نتیش کمار BJP کے اتحادی اور سشیل کمار مودی بطور نائب وزیراعلیٰ کام کر رہے ہیں، یوں آنے والے ایک سے ڈیڑھ برس میں بھارت کی داخلی سیاست کا ظاہری منظر نامہ کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ بھارتی پنجاب اور چھتیس گڑھ میں کانگرس کی حکومت قائم رہے گی، علاوہ ازیں اڑیسہ میں نوین پٹنائک کی سرکردگی میں بیجو جنتا دل، کیرالہ میں CPIM ، آندھرا پردیش میں جگموہن ریڈی، تامل ناڈو میں بی جے پی اتحادی AIDMK کے علاوہ لگ بھگ تمام بھارت میں BJP اور اس کے اتحادی اقتدار میں آ جائیں گے ۔اور تب 1925 کے RSS دیرینہ خواب کی تکمیل کی جانب واضح پیش رفت کرتے ہوئے 2021 کی مردم شماری کے فوراً بعد بھارت کو باقاعدہ طور پر ہندو ریاست کا درجہ دے دے گی ، یوں اسکی برائے نام سیکولر حیثیت بھی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچے گی اور ہندومت کو بھارت کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے گا۔
علاوہ ازیں رواں ہفتے دوبارہ مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال پر اقوام متحدہ کی جانب سے تشویش ظاہر کی گئی ہے اور یو این ہیومن رائٹس کونسل کی جاری کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں دہلی کی بدترین ریاستی دہشتگردی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت آتی جا رہی ہے اور مقبوضہ ریاست کے عوام میں دہلی سرکار کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے کشمیریوں کی طرف سے قابض بھارتی فوج کیخلاف بے مثال مزاحمت دیکھنے میں آئی اور دہلی سرکار کے غیر انسانی مظالم کے باوجود محکوم کشمیری اپنی تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مذکورہ رپورٹ میں دہلی سرکار کے جن چند سفاک مظالم کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کنان پوشپورہ سانحہ (اس سانحہ میں کنان اور پوشپورہ کے گائوں میں قابض بھارتی فوجیوں نے قیامت ڈھا دی تھی اور 14 سے 80 سال کی تمام خواتین کی آبرو ریزی کر کے انسانی تاریخ کی سیاہی میں مزید اضافہ کیا تھا) ، نہتے کشمیریوں کا بھارتی فوج کی طرف سے اغوا ، اجتماعی قبریں، پیلٹ گنوں کا بے تحاشا استعمال اور وادی میں نافذ دہلی سرکار کا کالے قانون ’’AFSPA ‘‘ (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ) شامل ہیں۔
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1990 کے بعد سے بھارتی فوجیوں کو تمام قسم کے جرائم کی کھلی چھوٹ ہے اور انھیں کسی قسم کی کوئی جوبدہی یا سزا سے مبرا قرار دیا جا چکا ہے، اور یہ امر اپنے آپ میں تکلیف دہ ہے۔ اس موقع پر کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کا انکوائری کمیشن بنانے کا بھی کہا گیا جو مقبوضہ کشمیر میں موجود بے نام اجتماعی قبروں سمیت انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کا جائزہ لے، اور بھارتی فوجیوں کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے والے قانون کے خاتمے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے پاک دفتر خارجہ کے ترجمان بریفنگ کے دوران واضح کر چکے ہیں کہ بھارت اگر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کمیشن کو رسائی دینے پر رضا مند ہے تو پاکستان بھی آزاد کشمیر میں عالمی برادری کو تمام مطلوبہ رسائی دینے کو تیار ہے۔ اگر بھارت برصغیر میں حقیقی امن کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی چانکیائی ذہنیت کو ترک کرنا ہو گا۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تو عرصہ دراز سے اس امر کا مطالبہ کرتا چلا آیا ہے مگر دہلی سرکار کو اپنی روش کا بخوبی علم ہے، اور وہ جانتی ہے کہ اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے سے بھارتی حکمرانوں کے جمہوریت اور سیکولرازم کے دعووں کا پردہ چاک ہو جائے گا لہذا وہ اس ضمن میں رسائی ہر گز نہیں دینا چاہتا اور اپنی ظالمانہ روش پر نظرثانی کرنے کے بجائے اس نے پاکستان پر الزام تراشی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔ اس صورتحال کا سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ہم عملاً اپنی داخلی سیاست کی بھول بھلیوں میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی طرف ہماری کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں۔ ہمیں اپنی اس روش کو کسی طور قابلِ رشک قرار نہیں دینا چاہیے اور سعی کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں صورتحال کی اصلاح کی جانب بھرپور اور موثر ڈھنگ سے توجہ دی جائے تا کہ دہلی کی سازشوں اور جمہوریت پسندی و سیکولرازم کے نام نہاد دعووں کی اصل شکل دنیا کے سامنے لائی جا سکے۔ بہرحال یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہلی کے حکمرانوں کے مظالم کی اس ’’دیوارِ برہمن ‘‘ کو گرنا تو ہے!