کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی برقرار، دنیا عملیت کی طرف آئے

مقبوضہ کشمیر میں تقسیم کیخلاف پابندیاں توڑ کر مظاہرے، ناروے کی کشمیر ایشو پر کردار ادا کرنے کی پیشکش
مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو اور لاک ڈائون مسلسل جاری ہے۔ دکانیں اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کو عملاً دو حصوں میں تقسیم کرنے پر وادی میں بھارت کے خلاف سخت غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ کشمیری عوام بڈگام‘ شوپیاں‘ پلوامہ‘ کلگام سمیت کئی اضلاع میں سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے ظالمانہ اقدامات پر شدید احتجاج کیا۔ بھارتی فورسز نے احتجاج کرنے والوں پر پیلٹ گن چلائی جس سے بیسیوں نوجوان زخمی ہو گئے۔ مظاہرے کی کوریج پر آئے صحافیوں پر قابض فورسز نے تشدد کیا جس سے تین صحافی زخمی ہوگئے، مزمل متو نامی ایک فوٹو جرنلسٹ نے ایک خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ سرینگر کے علاقے خانیار میں بھارت مخالف مظاہرے کی تصاویر بنا رہا تھا کہ بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے اس پر پیلٹ بندوق تان لی اور اسے مارا پیٹا۔ مسرت زہرا نامی ایک خاتون رپورٹر کے مطابق پولیس اہلکاروں نے اسے بھی سخت توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا۔ دریں اثناء ناروے کی وزیر خارجہ مس اینے ایم ایرکسن سوریدے نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے کی موجودہ صورتحال میں (تنازع کشمیر کے کیس میں بیرونی سہولت کاری) بیرونی کرداروں کی شمولیت کا امکان بہت ہی محدود نظر آرہا ہے۔ وزیر خارجہ نے پاکستان بھارت مذاکرات کے عمل میں سہولت دینے کے لیے ناروے کے کردار کے بارے میں کہا کہ یہ اس صورت میں ممکن ہے، جب دونوں فریق اس کی خواہش رکھتے ہوں۔ بھارتی موقف کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ شق نمبر 370 کو ختم کرنا بھارت کا ایک داخلی معاملہ ہے جسے وہاں کے آئین کے اندر رہ کر انجام دیا گیا ہے، البتہ اسکا حتمی فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کر سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے نارویجن وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے پرانے موقف کو پیش کیا ان کے بقول ناروے نے بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت میں واضح طور پر توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ ان ذمہ داریوں میں پاکستان کے ساتھ تنازع کے حوالے سے جو خطے میں کشیدگی کی ایک اہم وجہ ہے، بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنا بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے نارویجن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ناروے نے دونوں ملکوں پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں۔
ناروے میں کشمیر ایشو کو سرکاری سطح پر بھی موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں ناروے کی وزیر اعظم ارنا سولمبرگ نے پاکستان کا دورہ کیا تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔ پاکستان کے دورے کے بعد ارنا سولمبرگ بھارت گئیں تو انہوں نے وہاں بھی کشمیر ایشو پر بات کی ۔ مودی سرکار کسی سے بھی کشمیر کا نام تک سننا گوارہ نہیں کرتی۔ ان سے پاکستان اور بھارت کے مابین مصالحت کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا اگر دونوں ممالک کی مصالحت میں دلچسپی ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ظاہر ہے بھارت کی اس میں قطعی دلچسپی نہیں ہے۔ نارویجن وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر پر لمبی چوڑی گفتگو کی جس کے مرکزی نکتہ میں دونوں ممالک پر تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور تھا۔ حالیہ دنوں ناروے کے سابق وزیر اعظم کے جیل میگنے نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے بھارتی فورسز کی سفاکیت کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے آزاد کشمیر میں حالات کو پرامن اور مقبوضہ کشمیر میں بد ترین قرار دیا تھا۔ بھارت سے یہ سچائی ہضم نہ ہو سکی تھی جس پر اس دورے ، ان کے بیانات کو متنازعہ بنایا گیا۔ علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سے ان کی ملاقاتوں پر شدید تنقید کی گئی مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ دونوں طرف کے کشمیریوں کا بھارت کے ظالم اور جابر ہونے کا پیغام دنیا تک پہنچ چکا تھا۔
نارویجن وزیر خارجہ کا بیان جہاں انہیں وزیر اعظم کے بیان کی تائید ہے وہیں انہوں نے جو کچھ کیا وہ کشمیر ایشو کے حوالے سے کئی حوالوں سے ان کی لاعلمی کا بھی غماز ہے۔ پہلے تو ایریکسن کے بیان کے پس منظر کو جاننے کی ضرورت ہے ۔ ناروے کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے ملک کی وزیر خارجہ مس اینے ایم۔ ایرکسن سوریدے سے کہاتھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ گھمبیرصورتحال پر اپنا موقف واضح کریں۔ان اراکین پارلیمنٹ کا تعلق ناروے کے حکمران اتحاد میں شامل جماعت کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی، اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت لیبرپارٹی اور بائیں بازو کی ایس وے پارٹی سے ہے۔کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ کنوت ارید ھارایدے جو پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کے چیئرمین بھی ہیں، نے نارویجن وزیر خارجہ کو ایک تحریری سوال میں کہا تھا کہ جب سے بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس خطے کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان دونوں علاقوں وادی اور لداخ کو مرکزی حکومت کے تحت قرار دیا ہے، کشمیری عوام اس صورتحال پر سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ علاقے میں فوج کی نفری بڑھا دی ہے، سیاسی و سماجی شخصیات کو گرفتار کرلیا، دوہزار کے قریب اہم لوگوں کو حراست میں لیا گیا یا انہیں نظربند کردیا گیا ہے، فون لائنز اور انٹرنیٹ منقطع کردیا ہے اور عام سرگرمیوں اور نقل و حرکت کو محدود کرکے شہریوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وزیرخارجہ اپنا موقف واضح کریں اور یہ بھی بتائیں کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں سویلین رائٹس کے تحفظ اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے اور امن عمل بحال کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟اسی طرح کا تحریری سوال ایک اور رکن پارلیمنٹ پیٹر ایدے جن کا تعلق بائیں بازو کی سوشلسٹ لفٹ پارٹی(ایس وے)سے ہے، نے بھی وزیرخارجہ کو ارسال کیا تھا۔رکن پارلیمنٹ کی تحریر میں کہاگیا ہے کہ جب سے بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے، بھارت کے زیرانتظام یہ خطہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس آرہی ہیں اور دو جوہری ملکوں بھارت اور پاکستان کے مابین بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔خط میں انہوں نے ماضی میں امن کے لیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ناروے کے کردار کا بھی حوالہ دیا ہے۔ایک اور خط ناروے کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبرپارٹی کے رکن اسمبلی جان بوھلر نے لکھا ہے جس میں سوال کیا گیا ہے کہ ناروے نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی ایمرجنسی کے نفاذ پر احتجاج کے لیے اب تک کیا کیا ہے اور مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ جس پر مس ایریکسن نے اپنی حکومت کا لائحہ عمل ضرور بتایاتاہم ان کو باور کرانے کی ضروت ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی نہیں پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ ہے۔ بھارت ثالثی اور مصالحت کی ہر تجویز کو رعونت کے ساتھ مسترد کر دیتا ہے۔ عالمی برادری کو اب اسے راہ راست پر لانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔
کشمیریوں نے 5 اگست کے اقدام کو بری طرح مسترد کر دیا تھا۔ ان کو خاموش رکھنے کے لیے بھارت نے مزید فوج بھجوا دی جس کی تعداد نو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ کرفیو کے ذریعے کشمیریوں کے لیے ان کا اپنا وطن ہی قید خانہ بنا دیا گیا ہے۔ وای میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جو بدترین صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ کشمیری اپنے حق سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہیں وہ کرفیو کے دوران بھی موقع ملتے ہی گھروں سے نکل کر مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ 31 اکتوبر کو مقبوضہ وادی کی تقسیم کو عملی شکل دیدی گئی تو کشمیری اشتعال میں نظر آئے۔ و ہ کرفیو کی مزید شدت کے ساتھ خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے بھارتی سفاک فورسز کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں لہٰذا وہ ظلم اور جبر کا ہر حربہ اختیار کر رہی ہیں۔ جس سے انسانی بحران مزید خوفناک اور ہولناک ہو رہا ہے۔ کشمیری اپنے عمل اور قول سے بھارت کو باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنے حق کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ بھارت کے پروردہ گروہوںکو بھی وارننگ دے رہے ہیں۔ سرینگرمیں چسپاں پوسٹروں میں کشمیری سیاستدانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے کھلے عام یا خفیہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ تعاون کیا تو اسے لوگوں کی طرف سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پوسٹروں میں عام لوگوں سے بھی کہا گیا کہ وہ غداروں سے ہوشیار رہیں اور انہیں ایک ناقابل فراموش سبق سکھائیں۔
وزیر اعظم مودی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دفعہ 370 ختم کر کے علیحدگی پسندی اور دہشتگردی کی بڑی وجہ ختم کر دی ہے۔ یہ بیان بھارت کے سب سے بڑے دہشتگرد کی طرف سے دیا گیا اگر واقعی دفعہ 370 کے خاتمے سے بھارتی مقاصد پورے ہوئے ہیں تو کرفیو کیوں اٹھا نہیں لیا جاتا۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر ایشو کو بھرپور طریقے سے اٹھایا گیا مگر افسوس ناک امر ہے کہ مقبوضہ وادی کی تقسیم کو عملی شکل دی گئی تو پاکستانی میڈیا میں اس ایشو پر سکوت طاری رہا۔ میڈیا کی پوری توجہ اپوزیشن کے مارچ اور احتجاج پر مبذول ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا احتجاج جب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھتا کشمیر ایشو اسی طرح پس منظر میں رہے گا۔ فریقین کو اس کا شدت کے ساتھ احساس ہونا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن