مولانا فضل الرحمان اسلام آباد سے جائیں یا بیٹھے رہیں، وہ آزادی مارچ کو جاری رکھیں یا ختم کریں یہ ایک سیاسی بحث ہے۔ جیسے جیسے ان کا مارچ ہوتا رہے گا ویسے ویسے سیاسی پیشرفت بھی ہوتی رہے گی اور نئی چیزیں بھی سامنے آتی رہیں گی۔ لوگ لکھتے و بولتے رہیں گے ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہے گا۔ ویسے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے سیاسی درجہ حرارت میں شدت تو آئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس امید میں ہیں کہ بیٹھے بٹھائے کچھ ہو جائے اور ان کا درجہ حزب اختلاف سے حزب اقتدار ہو جائے۔ اب یہ ان کی خواہش ہے اور ہزاروں خواہشیں ایسی کی ہر خواہش پہ دم نکلے، ایک طرف جمہوریت اور جمہوری رویوں کے فروغ کی بات ہے تو دوسری طرف حکومت میں تبدیلی کے لیے غیر جمہوری انداز سیاست کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال یہ ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ جب ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو خیالات کچھ اور ہوتے ہیں جب حکومت میں ہوتے ہیں تو انداز کچھ اور ہوتا ہے۔ یہی حال مولانا فضل الرحمان کا بھی ہے بالخصوص جب وہ قادیانیوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے تھے تو شاید یہ بھول گئے کہ جب وہ رکن قومی اسمبلی تھے میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی حکومت تھی اور ختم نبوت کے قانون کی شقوں میں تبدیلی کے حوالے سے ایک بل پیش ہوا تھا اس وقت مولانا فضل الرحمان کہاں غائب تھے۔ اس بل کے وقت مولانا کیوں نہ گرجے، کیوں نہ برسے، ان کا ایمان تازہ کیوں نہ ہوا اس وقت تو انہوں نے یہ فرمایا کہ پارلیمنٹ سے اجتماعی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ اس غلطی میں مولانا کا اپنا بھی کوئی کردار یقیناً تھا، کیا انہوں نے کفارہ ادا کیا، اگر نہیں کیا تو کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو اس بل اور اپنی خاموشی کے حوالے سے سچ ہی بتا دیتے۔ کاش مولانا کی آواز اس وقت بلند ہوتی وہ اس بل کے خلاف اسمبلی چھوڑتے اور حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرتے لیکن حکومت کے چسکے نے انہیں اس کام سے روکے رکھا اور آج جب اقتدار کی مراعات ان کے ساتھ نہیں ہیں تو انہیں ایک مرتبہ پھر ختم نبوت کا قانون یاد آیا ہے۔ وہ عالم دین ہیں جانتے ہیں کہ نماز قضا ہو جائے تو اس کی حیثیت بدل جاتی ہے۔ فرض کے وقت نفل نہیں پڑھے جاتے جب اصل وقت تھا ختم نبوت کا سپاہی بننے کا اس وقت مولانا فضل الرحمان نواز شریف کے سپاہی بنے ہوئے تھے اور آج جب انہیں میاں نواز شریف کہیں نظر نہیں آ رہے تو پھر انہیں ختم نبوت کا قانون یاد آیا ہے، انہیں قادیانی یاد آ رہے ہیں۔ انہیں اسرائیل یاد آ رہا ہے۔ کاش حکومت میں ہوتے ہوئے، ان کے اتحادی ہوتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے تو ان کے آج کے موقف کو تقویت ملتی اور ان کی اس تقریر میں سے کوئی سیاسی پہلو نہ نکلتا نہ اس جذبے اور لگائو پر کوئی دوسرا خیال آتا چونکہ مولانا فضل الرحمان نے ختم نبوت قانون کی ٹرین اسمبلی میں رہتے ہوئے مس کی اور آج وہ اپوزیشن میں ہیں اور سڑکوں پر ہیں تو ختم نبوت کے قانون کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لئے استعمال کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
مولانا شاید ختم نبوت کے قانون کی حفاظت کے لئے جان نہ دے سکیں لیکن اس ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو اس مقصد کے لیے جان دینے کو اعزاز سمجھتے ہیں، کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے خیال میں وہ سب سے بڑھ کر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور شاید مولانا سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ مولانا شاید بھول رہے ہیں کہ اس حوالے سے پاکستان کا آئین بہت واضح ہے۔ پاکستان کے عوام فیصلہ کر چکے ہیں، آئین نے وضاحت کر دی ہے وہ اقلیت ہیں پھر مولانا کو کیا فکر کھائے جائے رہی ہے۔ مولانا اس پہرے سے غافل ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام نے نہ ماضی میں اس حوالے کوئی کوتاہی کی ہے اور نہ مستقبل میں اسکا کوئی امکان ہے۔ یہی عوامی سوچ اسرائیل کوتسلیم کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے ہے پھر مولانا فضل الرحمان انتہائی معاملات پر عوامی جذبات ابھارنے اور انہیں استعمال کرنے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں نہ قادیانیوں کے لیے کوئی گنجائش ہے نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی عوامی جذبات کے خلاف جانے کی ہمت کر سکتا ہے۔
مولانا بخوبی جانتے ہیں کہ ان دونوں اہم معاملات پر اب تک کس نے کتنا کام کیا ہے اور کس کس نے ختم نبوت کے قانون کی حفاظت کے لیے خدمات انجام دی ہیں لیکن حکومتی مراعات کے مزے لیتے ہوئے صرف مولانا ہی نہیں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والے ہر شخص کی سوچ، خیالات اور بیانات کچھ اور ہوتے ہیں جبکہ اپوزیشن میں حالات کچھ اور ہوتے ہیں۔ تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ انتہائی اہم مذہبی معاملات میں مصلحتوں سے کام لیا جاتا ہے۔
رہی بات مدارس میں اصلاحات کی تو اس حوالے سے کوئی بھی حکومت ہو ہر شہری کو اسلامی تعلیم کے لیے سہولیات کی فراہمی ریاست کا اولین فرض ہے۔ ہمیں ایک ایسے سلیبس کی طرف جانے کی ضرورت ہے جہاں بنیادی تعلیمات ایک ہی جگہ ہوں اور تمام تعلیمی ادارے اس کے پابند ہوں، سپیشلائزیشن کے لیے حکومت اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لائے۔ اگر حکومت پنجاب یونیورسٹی، جامعہ کراچی کا خرچ اٹھا سکتی ہے تو اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے۔ یہ فرض ریاست کا ہے چونکہ ریاست کے اپنے ادارے اتنی کمزور حالت میں ہیں کہ وہ کچھ نیا یا تعمیری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے ہر کوئی اپنی اپنی مرضی کر رہا ہے۔ تعمیر کے لیے ہمیں یکساں نصاب تعلیم اور مشترکہ سلیبس کی طرف جانا ہو گا اور اس معاملے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
جہاں تک مولانا کے ایک مخصوص ادارے کے ساتھ اختلافات کا معاملہ ہے اس پر بھی انہیں قوم کو سچ بتانا چاہیے اگر وہ پورا سچ نہیں بول سکتے تو ادھا سچ بول کر قوم کو گمراہ تو نہ کریں۔ افواج پاکستان جانبدار ہیں لیکن صرف پاکستان کے لیے، افواج پاکستان فریق ہیں لیکن صرف پاکستان کی بقا کے لیے، افواج پاکستان متنازعہ ہیں لیکن صرف سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھنے کے لیے، افواج پاکستان کا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ مولانا اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن شاید وہ بدلتے حالات کو ابھی تک قبول کرنے میں ناکام رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو متنازعہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ سیاست کے تمام پہلو، اقتدار کے مزے اور مراعات صرف پاکستان سے ہیں اور پاکستان کے دفاع کی ضامن افواج پاکستان ہے مولانا اپنی سیاست کریں لیکن ملک و قوم کے دفاع کو متنازعہ بنانے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کریں۔