آج کل ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے یاس و نااُمیدی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے اپنے جلسے جلوسوں کا شیڈول جب سے دیا ہے ہلچل مچ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی نشانے پر ہے، فضل الرحمن کا کیا کہیں کہ وہ بھی اکیلے نہیں ہیں ظاہر ہے اُن کے ساتھ اُن کے مدرسوں کے بچے بھی شامل ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا اداروں سے ملاقاتوں کا رونا حکومتی وزراء کی ہر چینل پر بیٹھ کر رو رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کی اداروں سے ملاقاتیں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ملاقاتیں کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکتیں یہ بھی سبھی جانتے ہیں۔ یہ ادارے سمجھا جائے تو سب کے ہیں۔ اداروں سے اپوزیشن کی ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہئیں اگر ان ملاقاتوں میں ہمارے وزیراعظم بھی شریک ہوں تو زیادہ بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا اداروں سے ملنا اچھی صورتِ حال کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام پچھلے کئی سالوں سے اچھے مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں مگر کوئی ہے جو عوام کے بنیادی حقوق کی بات کرے۔ ہماری حکومت تو دو سال سے پچھلی حکومتوں کو ہی کوس رہی ہے کہ اُن ہی کی وجہ سے آج ہمارے ایسے حالات ہیں۔ مہنگائی کا سیلاب بھی پچھلی حکومت کی وجہ سے آرہا ہے بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ کس بات پر دیا تھا اور پھر تحریکِ انصاف نے عوام کو انصاف کا نعرہ لگا کر کون کون سے خواب نہیں دکھائے۔ معاشی انقلاب کا خواب دکھایا گیا اور اسی خواب کو دیکھ کر عوام جوق در جوق پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلے تھے اسکی وجہ صرف عمران خان پر اُن کا اعتماد تھا مگر افسوس کہ اس حکومت نے مہنگائی کی انتہا کردی ہے عوام کا جینا محال ہوچکا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کی اشیاء غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں ادویات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں نجانے وہ کون لوگ ہیں جو گورنمنٹ کو ادویات مہنگی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ غریب عوام جو دالیں کھا کر اپنا گذارا کرتے ہیں آج 300روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ اگر جاری وسائل میں مہنگائی ہوتی تو عوام کو شکایت نہ ہوتی لیکن افسوس ہے کہ اربوں ڈالرز کا قرضہ بھی لیا پھر بھی مہنگائی کا دوردورہ ہے کیا کوئی حکومت کا نمائندہ بتا سکتا ہے کہ وہ پیسہ کہاں گیا؟ کیا حکو مت عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ اسمبلیوں میں بھی اپوزیشن کے ساتھ لڑائی یا اپوزیشن کی گرفتاریوں کے علاوہ کوئی بحث نہیں کی جاتی۔ کیا حکومت نے سوچا کہ وہ کون کون سے وسائل ہیں جن سے عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے کیا کبھی بتایا ہے کہ دو اڑھائی سال میں نوازشریف یا زرداری وغیرہ سے اب تک کتنا پیسہ وصول کیا جاچکا ہے۔ کیا اگلے تین سال بھی یہی کہا جائے گا کہ اپوزیشن کا گند صاف کرتے کرتے پانچ سال ختم ہوگئے اور ہمیں تو کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ عوام کی آنکھیں کھلی ہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ ہر شعبے میں اصلاحات لائیں گے ملک کو سونا بنائیں گے ہر طرف انڈسٹری کا دور دورہ ہوگا جوانوں کو معاش کے مواقع ملیں گے مگر اس گورنمنٹ نے تو نوکری پیشہ لوگوں پر عرصۂ حیات ہی تنگ کردیا ہے ہر شعبہ میں ورکرز کو نوکری سے نکالا جارہا ہے یا اُنہیں پینشن سے بھی فارغ کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ کیا ہمارے وزیراعظم نہیں جانتے کہ اس مہنگائی کے دور میں آٹا چینی چاول اور ضروریات کی چیزیں غریب عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ گلگت، بلتستان میں 15نومبر کو قانون ساز اسمبلی کے الیکشن ہیں۔ امیدوار حکومت کے ساتھ الحاق کرسکتے ہیں مگر اُن کی بھی جیت اور ہار پر منحصر ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ ذی شعور عوام کو دھوکہ دینا شاید ممکن نہ ہو۔ 1840 سے پہلے یہ علاقہ مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں بلتستان گلگت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہنزہ نگر الگ خودمختار علاقے تھے۔ ان علاقوں میں گلگت اور بلتستان کو جزر زور اور سنگھ نے فتح کرلیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کردیا۔ گلگت اور بلتستان 1848 میں کشمیر کے ڈوگر سکھ راجا نے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصائے تبت میں شمال تھا۔ 1948 میں اس علاقے کے لوگوں نے خود آزادی کی جنگ لڑی اور آزادی حاصل کی۔ یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں پاکستان 3جنگیں 1948 کی جنگ کارگل جنگ اور سیاچن جنگ اسی خطے میں لڑا ہے۔ یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ ہے اور یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009 میں یہاں پہلی دفعہ انتخابات کروائے گئے اور اسے نیم صوبائی حیثیت بھی دی گئی۔ جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سیدمہدی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ شمالی علاقہ جات کی آبادی 81 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا کل رقبہ 72971 مربع کلومیٹر ہے۔ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان، دیامیر اور گلگت پر مشتمل ہے۔ گلگت ڈویژن گلگت غذر، ہنز اور نگر کے اضلا ع پر مشتمل ہے جبکہ دیامیر ڈویژن واریل، تانگیر، استور کے اضلاع شامل ہیں۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جبکہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا اینور کا علاقہ ہے۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے جبکہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیدمہدی شاہ نے 12دسمبر2009ء کو وزیراعلیٰ کا قلمدان سنبھالا اور اپریل 2015ء کو قلمدان چھوڑا جب پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو حافظ حفیظ الرحمن نے 27جون 2015ء کو قلمدان سنبھالا جو تاحال اُس کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اس کا انتخاب گلگت بلتستان اسمبلی کرتی ہے۔ گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی شمال میں واقع صوبے گلگت بلتستان کا قانون ساز ایوان ہے جو گلگت میں واقع ہے۔ ایوان گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 33نشستیں ہیں جن میں 24 پر براہِ راست انتخابات ہو رہے رہے ہیں جبکہ 6نشستیں خواتین اور 3نشستیں ٹیکنوکریٹ کے لیے مخصوص ہیں۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
تحریک انصاف کا …انصاف
Nov 04, 2020