علامہ اقبال اور مسئلۂ کشمیر

شاعرمشرق ، حکیم الامت ، حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے آباء نے ریاست کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں ڈیرے ڈالے تھے۔علامہ اقبال اصلاََ کشمیری النسل برہمن تھے اور آپ کے جد اعلی نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ کشمیر کی محبت لہو بن کر حضرت علامہ کے رگ و پے میں گردش کرتی تھی اور اہل ِکشمیر کی زبوں حالی پر ان کا دل کڑھتاتھا۔چنانچہ وہ کشمیر سے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
تنم گلے زخیابان جنت کشمیر
دلم زخاک حجازو نوازشیرازاست
ترجمہ: میرا تن جنتِ کشمیر کے گلزار کاایک گل ہے جبکہ میرا دل حجازمقدس کی خاک سے ہے اور میری نوا شیراز سے ہے ۔ ان کی شاعری اور خط وکتابت میں جابجا مسئلہء کشمیر کا ذکر ملتا ہے ۔ 1846ء کے معاہدۂ امرتسر کے ذریعے انگریز نے کشمیر کو محض 75 لاکھ روپے کے عو ض راجا گلاب سنگھ کو فروخت کر دیاتھا۔یہ ایک تاریخی نا انصافی اور انسانی تجارت کی بدترین مثال ہے۔ اسی ضمن میں علامہ نے جاوید نامہ کی ایک طویل مثنوی ـ’’درحضور شاہ ہمدان‘‘ میں کہا ہے:
بادصبااگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفی زما بہ مجلس اقوام بازگوئی
دہقان و کشت و جوے وخیابان فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
ترجمہ: اے بادصبا!اگر تو کبھی جنیواسے گزرے تو مجلس اقوام عالم(The League of Nations) کو بتادینا کہ یہاں (کشمیر میں) مجبور لوگ اپنے باغوں اور کھیتوں ،کھلیانوں سمیت اونے پونے داموں بیچ دیے گئے ہیں ۔حیف! ایک پوری قوم کا سودا کر دیا گیا ہے اور صد حیف کہ ایک شرم ناک نرخ پر سودا کیا گیا ہے۔جون1921ء میں حضرت علامہ پہلی مرتبہ ریاست کشمیر کے دورے پر گئے ۔ وہاں نشاط باغ میں پہروں بیٹھے رہتے اور مشق سخن جاری رہتی ۔وہیں آپ نے شہرہ آفاق فارسی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ لکھی جوپیام مشرق میں شامل ہے اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے کشمیر میں ریشم ساز کارخانوں اور وہاں کاری گروں اور مزدوروںکے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا کھل کے ذکر کیا ۔
بریشم قباخواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تارتارے
(اس کی محنت کے نتیجے میں سرمایہ دار ریشمی قباپہنے ہوئے ہے مگر کشمیری کے تن پرلباس تارتارہے)
 اس دور میں کشمیر مہاراجا کی ستم ظریفیوں کے بارِ گراں تلے کراہ رہا تھا اور اہلِ کشمیر بے یار و مدد گارتھے ۔ ا س بھیانک تیرگی میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ہر طرف مکمل سکوت اورسناٹاتھا۔ ایسے میں اقبال نے اپنی توانا آوز کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اُجاگرکیا۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
کہہ رہا ہے داستاں بے دردیٔ ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقانِ پیر
آہ! یہ قوم ِ نجیب وچرب دست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیرگیر؟
علامہ اقبال ہی کی خواہش پر14اگست 1931ء کو پہلی مرتبہ یوم کشمیر منایا گیا۔ اسی طرح1932ء کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطاب کے دوران انھوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا:
’’کشمیر اس وقت قیامت کا منظر پیش کررہا ہے۔ کشمیری عوام حق پر ہیں ۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کے لیے قوت کا باعث بنے گی ۔ انکے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینا لغوہے۔تشدد میں تسلسل، ریاست میں لاقانونیت کو جنم دے رہا ہے۔ ‘‘
اقبال ایک دور اندیش نگاہ رکھنے والے مرد قلندر تھے ۔ انھوں نے اپنی بصیرت سے مستقبل کے دبیز پردوں میں لپٹے ہوئے مسائل کا ادراک بھی کیا اوران کا ایک جامع حل بھی تجویز کیا ۔پاکستان کا وجود آپ ہی کے ذہن رسا کا حاصل ہے ۔ اہل کشمیر کو بھی انھوں نے سعیٔ پیہم اور جہد مسلسل جاری رکھنے کی تلقین کی اور ساتھ ہی اپنی صفوں میں موجود میر جعفر و میرصادق جیسے کرداروں سے آگاہ رہنے کا مشورہ بھی دیا ۔ 
ملت را ہر کجا غارت گرے است
اصل او از صادقے یا جعفرے است 
الاماں از روح جعفر الاماں
الاماں از جعفر ان ایں زماں 
………………… (جاری)

ای پیپر دی نیشن