پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ چہرے بدلتے رہے ہیں جبکہ ریاست کا نظام اسی طرح چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد فائز ہوئے جن میں فوجی آمر، ٹیکنو کریٹ، جاگیردار، تاجر، صنعت کار، سفارت کار، ایڈووکیٹ ،گدی نشین سب شامل تھے مگر ان میں سے کوئی بھی حکمران پاکستان کو مستقل اور پائیدار طور پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہ کرسکا۔ اگرچہ ان میں سے کئی حکمرانوں نے نیک نیتی کے ساتھ اپنی اہلیت کے مطابق پوری کوشش کی کہ وہ پاکستان کو پائیدار بنیادوں پر کھڑا کر سکیں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اسکے نتیجے میں یہ سلوگن سامنے آیا کہ ’’چہرے نہیں نظام بدلو‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں چہرے تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر اصل رکاوٹ ریاست کا وہ نظام ہے جسے انگریزوں نے ہمیں دیا تھا اور جو ترقی اور خوشحالی کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کو محکوم اور غلام بنانے کیلئے تھا۔ انگریزوں نے اس ریاستی نظام کی بنیاد پر جس طریقے سے متحدہ ہندوستان کے قومی وسائل کو لوٹا اس کی داستانیں تاریخ کی کتابوں میں رقم اور محفوظ ہیں۔ اس استحصالی اور مفاداتی نظام کی وجہ سے لوٹ مار آج بھی جاری ہے۔ پاکستان میں قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ہر لحاظ سے ناکارہ، فرسودہ اور غیر موثر ہو چکا ہے۔ یہ نظام پاکستان کے عوام اور قوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مستقبل اور عوام کے مقدر کیلئے لازم ہے کہ موجودہ ریاستی نظام میں انقلابی اصلاحات نافذ کی جائیں تاکہ یہ استحصال اور جمود پر مبنی نظام متحرک اور فعال بن سکے۔ جس میں پاکستان کے عوام کو شریک کیا جا سکے اور پاکستان کے تمام افراد مل کر ایک نئے شراکتی نظام کے تحت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کردار ادا کر سکیں۔ ریاستی نظام میں اصلاحات کے سلسلے میں مختلف سطحوں پر قابل ستائش کام ہو چکا ہے جو سرکاری فائلوں اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے لہٰذا یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں متبادل کوئی نظام موجود نہیں ہے۔
قومی سطح پر معروف کارپوریٹ ٹرینر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے سپیشل ایڈوائزر پاکستان جاگو تحریک کے اعزازی مشیر برائے اصلاحات عزیز محترم ڈاکٹر حسنین جاوید اور محترمہ ڈاکٹر صبا ایف فردوسی اکانومسٹ محقق سابق معاشی مشیر شعبہ انڈسٹری وزارت صنعت و پیداوار کی مشترکہ تحقیقی کاوش سے ایک منفرد اور جامع کتاب وائٹ مینی فیسٹو Manifesto White The مارکیٹ میں بک اسٹالز کی زینت بنی ہے جس کا پیش لفظ صدر جانگ سو یونیورسٹی ڈاکٹر یان زیادہوگ نے تحریر کیا ہے جس سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ دونوں سکالرز نے چین کے کامیاب ماڈل کا تفصیلی مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے۔ مصنفین کا خیال ہے کہ پاکستان اپنے قابل اعتماد دوست کے تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کرکے اپنے ریاستی نظام کو فعال اور متحرک بنا سکتا ہے۔ پاک چین دوستی سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ پاکستان کے عوام چین کے ساتھ جذباتی اور قلبی وابستگی رکھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے یہ سمجھتے ہیں کہ چین ہمارا سچا اور پکا دوست ہے جس پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی دوستی تو نبھائی مگر افسوس چین کے کامیاب ماڈل سے ہم کچھ نہیں سیکھ سکے۔
• کتاب کے مصنفین لکھتے ہیں کہ چین کی پولیٹیکل اکانومی کا مرکزی نکتہ کمیونٹی کا اجتماعی مستقبل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں گروتھ میں اضافے کے لئے معاشی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے مفادات پر مبنی ایک شیطانی چکر چل رہا ہے جسے توڑنے کی ضرورت ہے جو جدید انقلابی اور عوامی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر حسنین جاوید لکھتے ہیں کہ وقت بہترین استاد ہے اس سے سیکھ کر آگے بڑھنے کیلئے اصلاحات بے حد ضروری ہو چکی ہیں۔ پاکستان کا قومی مقصد چند لوگوں کی خوشیوں کے بجائے سب لوگوں کی خوشیوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ جس ریاست میں غربت اور محرومی کے جزیرے موجود ہوں وہ ریاست ہمیشہ جمود کا شکار رہتی ہے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔ مصنفین نے اپنی کتاب میں انقلابی اصلاحات کی جزئیات تو پیش نہیں کیں البتہ انکے بنیادی اصول واضح کر دئیے ہیں جن کی بنیاد پر انقلابی اصلاحات کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ مصنفین کے مطابق پاکستان کو اجتماعی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر ڈالنے کیلئے ضروری ہے کہ کوالٹی اور استعداد دونوں میں اضافہ کیا جائے۔ کرپشن پر قابو پانے کیلئے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔ ہر شعبے میں فعال متحرک اور قابل عمل اصلاحات نافذ کی جائیں۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور رول آف لاء کیلئے ریفارمز تشکیل دی جائیں۔ مصنفین کے مطابق پاکستان میں مادرپدر آزاد جمہوریت کی بجائے کنٹرولڈ اور مشاورتی جمہوریت ہونی چاہئے تاکہ جمہوریت ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ معاون ثابت ہو۔ پاکستان میں ایسے کلچر کو فروغ دیا جائے کہ پاکستان کے عوام ’’میڈ ان پاکستان‘‘ پر فخر کریں۔ ماحولیاتی تبدیلی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو کہ پوری کائنات کیلئے تشویشناک خطرہ بن چکا ہے۔ مصنفین نے کتاب کے ایک چیپٹر میں عدالتی کرپشن اور اسکے حل کے بارے میں بھی تجاویز پیش کی ہیں۔ مصنفین کے مطابق ہم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی وجہ سے پاکستان کے ہر شعبے میں اخلاقی بنیادیں مسمار کرچکے ہیں جن کی وجہ سے مختلف نوعیت کے بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اخلاقی بنیادوں کو دوبارہ استوار کریں۔ 120 صفحات پر مشتمل اس مختصر مگر جامع کتاب کو عزیز محترم عدیل نیاز نے جہانگیر ورلڈ ٹائمز پبلی کیشنز کے نام سے شائع کیا ہے۔