میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے۔ پاکستان اسی خطے میں واقع ہے۔ مگر آج عالم عرب کے تپتے ریگستانوں سے جھلستی ہوائوںنے پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔
میاںنواز شریف نے جب پہلی تقریری توپ داغی تو مجھے تعجب یہ تھا کہ میاںنواز شریف منتقم مزاج تو ہیں مگر عالمی لائوڈ اسپیکر پر پاک فوج کو رگیدنا شروع کر دیںگے،میںنے کئی دوستوں سے پوچھا کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ وہ کس کی شہ پر پاکستان ا ورا س کی ا فواج کوللکار رہے ہیں، مجھے امریکہ سے ایک دوست نے جو بتایا وہ اب کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے کس عرب ملک کے سفارت کار لندن میں ان کے گھر کا طواف کر رہے ہیں،مجھے اس پر یقین نہ آیا مگر حالات بدلتے دیر نہیں لگتی،۔ دھواں تو بہت پہلے سے ا ٹھ رہا تھا۔ متحدہ عرب ا مارات میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کاا جلاس ہوا تو اس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مدعو کر لیا گیا۔ یہ میٹنگ پانچ اگست کے سانحے کے بعد ہوئی تھی۔پاکستان نے اس پر احتجاج کیا اور بھارتی وزیر خارجہ کو واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا مگر امارات نے ایک نہ سنی ، اور پاکستان کوا س اجلاس کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔اسی پر بس نہیں امارات والوں نے نریندر مودی کو بلایا ۔اسے اپنا اعلیٰ ترین سول ایواڈ دیا ۔ شاید کشمیریوں کو غلام بنانے کاصلہ تھا۔ امارات والوںنے ایک قدم اورا ٹھایا اور اپنے ہاں ایک بہت شاندار ہندو مندر بھی کھڑا کر دیا۔ بھارت نوازی کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا، سعودی عرب نے مودی کو مدعو کیاا ور ا س کی خوب آئو بھگت کی۔ اب یہود نوازی ہونے لگی، امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا۔
پھر خبریں گرم ہوئیں کہ پاکستان پر بھی دبائو ہے کہ و ہ بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے ، مگر وزیرا عظم عمران خان نے کوئی دبائو قبول کرنے سے سراسر انکار کر دیا، اچانک سعودی عرب نے اپنا ادھار دیاپیسہ واپس مانگ لیا، پاکستان نے چین سے ایک ارب ڈالر لے کر سعودیہ کو پہلی قسط واپس کر دی ہے ، خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب وہ تیل بھی بندکرنا چاہتا ہے جو مئوخر ادائیگی کی بنیاد پر دے رہا ہے۔ اس بگڑتی صورت حال کو درست کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ا یس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید سعودیہ گئے ۔یہ دورہ کامیاب رہا یا ناکام۔ اس کی تہہ تک جانے کی ضروت نہیں کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یااس کے ساتھ امن کے معاہدوں کی ایک قطارلگی ہوئی ہے۔ پاکستان اس قطار میںکھڑا نہیںہوسکتا۔
یہ کہنا غلط ہے کہ عالم عرب کی پاکستان سے دوری کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے یمن کے لئے۔بحرین کے لئے کویت کے لئے شام کے لئے یا کسی دوسرے عرب ملک کے لئے اپنی فوج نہیں بھیجی ۔ یہ وجہ ہوتی تو تعلقات میں بگاڑ بہت پہلے آ چکا ہوتا۔
حالیہ کشیدگی کی ایک ہی وجہ ہے کہ عالم عرب ایک طرف بھارت اور دوسری طرف اسرائیل کے نخرے اٹھا رہا ہے۔ دونوں صورتیں پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں ، نہ وہ کشمیر کو بھول سکتا ہے اور نہ فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ کر سکتا ہے۔
عالم عرب کی مرضی ہے کہ جو بھی خارجہ پالیسی اپنا لے مگر پاکستان کی بھی مرضی ہے کہ وہ اپنے مفاد کو دیکھے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائے۔
عالم عرب کے نزدیک پاکستان کاایک گناہ یہ ہے کہ اس نے ترکی کے ساتھ قربت اختیار کر لی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آج کے عرب اپنا ماضی بھول گئے ہیں،وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔یہ خدا کی دین ہے۔ مگروہ اس دولت کو بھارت کی وسیع منڈیوں میں پھینکنا چاہتے ہیں۔ وہ بڑے شوق سے بھارت جائیں انہیں بھارت کے ہاتھ پہلے کبھی نہیں لگے، اب لگیں گے تو ان کی آ نکھیں کھل جائیں گی ۔
پاکستان ہمیشہ سے عالم عرب کا خیر خواہ ہے۔ ان کو ماہرین دیئے ان کی فضائی کمپنیوں کو اڑنا سکھایا۔ آج بھی عربوں کے رافیل طیارے پاکستانی پائیلٹ ہی چلا رہے ہیں۔ میرے مرشد مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ پاکستان عالم عرب کا قلعہ دار ہے۔
بلا شبہ اہل پاکستان کی حرمین شریفین سے جذباتی وابستگی ہے اور اس رشتے کو نہ کمزور کیا جا سکتا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہے۔چلئے مان لیتے ہیں کہ یہ یک طرفہ رشتہ ہے مگر نصف صدی سے یہ د وطرفہ رشتہ قائم رہا ہے اور اب بھی کوشش کی جائے تواسے مستحکم رکھا جا سکتا ہے اور پائیدار بنایا جاسکتا ہے۔ بلاد عرب بھی ہمارے خون میںرچے بسے ہیں،یہاں خالد بن ولید۔ سعد ابن وقاص ابو عبیدہ،اور آگے چل کر صلاح الدین ایوبی نے اسلام کا علم بلند کیا۔ اپنے خون سے اس سرزمین کو سینچا۔اس لیئے پاکستانی نفسیات سے ا س خطے کو کسی طور پر ختم نہیںکیا جاسکتا۔ وقتی طو پر ایک جھٹکا محسوس ہو رہا ہے اور کئی فالٹ لائینز ایسی ہیں جو جھٹکے لگاتی رہیں گی مگر بالآخر ہمیں ایک ساتھ ہی چلنا ہے۔ ہمار امذہب ایک ہے۔ تاریخ ایک ہے۔ ثقافت ایک ہے اور ہمیںایک ہو کر رہنا ہو گا۔ عرب کے ریگستان خنک ہوائوں سے لبریز ہوں گے اور میر عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے، وہ خطہ ارض پاکستان بھی عالم عرب کے سینوں کو راحت اور ٹھنڈک پہنچائے گا۔
٭…٭…٭