حضرت یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ انہوںنے حضرت انس ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ ایک اعرابی نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کردیا ۔ لوگوںنے اس پر چیخنا شروع کیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اسے چھوڑدو۔ جب وہ فارغ ہواتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا برتن لانے کا حکم دیا اوراس (گندگی )پر پانی بہادیا۔(صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے، فرماتے ہیں :ہم مسجد میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھا کرتے تھے۔ جب حضور اکرم ﷺاٹھتے تو ہم بھی اٹھ جاتے۔ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اٹھے، ہم بھی آپکے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے،جب آپ ﷺمسجد کے وسط میں پہنچے توایک شخص نے پیچھے سے آپکی چادر کو پکڑکرزورسے کھینچا ۔ چادرکھردری تھی جس نے آپکی گردن کو سرخ کردیا۔ اس شخص نے کہا:اے محمد(صلی اللہ علیک وسلم)! میرے ان دونوں اونٹوں پر مال لاددوکیونکہ آپ اپنے اوراپنے باپ کے مال سے تو نہیں دیتے۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا:استغفر اللہ ، میں تو اس وقت تک تمہیں مال نہیں دوں گا جب تک تم مجھے میرے گردن کو کھینچنے کا بدلہ نہیں دے دیتے۔ اعرابی نے کہا: نہیں، خدا کی قسم میںآپ کوبدلہ نہیں دوں گا۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔ اعرابی ہر بار یہ کہتا: نہیں ، خدا کی قسم میں آپ کو بدلہ نہیں دوں گا۔ جب ہم نے اعرابی کی بات سنی تو ہم تیزی سے اسکی طرف بڑھے۔ حضور اکرم ﷺہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جو شخص میری بات سن رہا ہے میں اس کو قسم دیتا ہوں کہ وہ میری اجازت کے بغیر اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ پھر حضور اکرم ﷺنے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اس اعرابی کو ایک اونٹ پر جو اورایک اونٹ پر کھجوریں لادکر دے دے ۔ پھر حضور اکرم ﷺنے لوگوں کو لوٹ جانے کا حکم دیا۔ (سنن نسائی)حضرت انس ؓسے مروی ہے ، فرماتے ہیں: میںنے دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب بھی کوئی ایسا معاملہ پیش کیاگیا جس میں قصاص لاگوہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کردینے کا مشورہ دیا۔ (سنن ابی دائود ) حضور اکرم ﷺنے خیبر کے مقام پر لوگوں کو جمع کرکے ایک خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی شامل تھے: بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے ، ان کی عورتوں کو مارنے اورانکے پھل کھانے کو حلال نہیں کیا، جب تک وہ تمہارا حق تمہیں اداکرتے رہیں۔ (سنن ابی دائود)