بدھ ‘  17؍ ربیع الاول  1442ھ‘  4؍  نومبر  2020ء

Nov 04, 2020

فردوس عاشق اعوان پھر مشیر اطلاعات بن گئیں ۔ فیاض چوہان فیصلے سے بے خبر نکلے 
یہ تو قسمت کی بات ہے جسے ہم تقدیر کی ہیرا پھیری بھی کہہ سکتے ہیں آج جو یہاں ہے کل وہ وہاں ہو سکتا ہے۔ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ہیں۔ سو یہ آنا جانا لگا رتا ہے۔ جب آسمان اور زمین گردش میں ہیں تو پھر کچھ ہونے یا نہ ہونے کا تردد کرنا فضول ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں بار بار قدرت کی فیاضی کی بدولت وزاتیں مشاورتیں ملتی رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی کے دور میں بھی ان پر وزارت کی دیوی مہربان رہی۔ گرچہ گردش ایام کی وجہ سے انہیں وزارت سے علیحدہ بھی کیا گیا مگر آفرین ہے ان پر کہ میڈیا پر ایک لفظ بھی اس بارے میں ان کے منہ سے نہیں نکلا۔ اسے کہتے ہیں وفاداری بشرط استواری۔ اب وہ ایک بار پھر مشیر اطلاعات و نشریات بن کر مخالفین پر دھاوا بولنے کے لیے تیار ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات فیاض چوہان آخر تک اس تبدیلی سے بے خبر رہے۔ دوسروں تک خبر پہنچانے والا خود اتنا  بے خبر نکلا حیرت ہے۔ اب ان کی طرف سے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ والا بیانیہ سامنے آتا ہے یا وہ بھی سر جھکائے ’’پھر جو مزاج یار کہے مان جائیے‘‘ والی پالیسی پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ابھی ان کے پاس ایک وزارت بچی ہے۔ فی الحال اسی پر قناعت کریں ورنہ ہمارے شاہوں میں تاب سخن کہاں ہے۔
٭٭٭٭٭
بھٹہ مالکان کی من مانیاں‘ ایک ہزار اینٹ دو ہزار روپے مہنگی
اب تو لگتا ہے کسی کو اینٹ مارتے ہوئے بھی سوچنا پڑے گا کہ اتنی قیمتی اینٹ کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ شاید ایسی ہی کسی گرانی کے دور میں چچا غالب نے کہا تھا…؎
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
کیا معلوم اس دور میں اینٹوں کو اینٹ کہنا معیوب سمجھا جاتا ہو اور سنگ کہنا درست سمجھا جاتا ہو۔ جبھی تو علامہ اقبال نے بھی اینٹ کی بجائے سنگ و خشت سے نیا جہاں آباد کرنے کی بات کی تھی۔ بھلا اب کوئی انتظامیہ کو کیا سمجھائے کہ غریب کیلئے گھر بنانا پہلے کون سا آسان تھا کہ اب یہ اور مہنگا کر دیا گیا۔ ایک ہزار اینٹ دو ہزار روپے مہنگی کا مطلب ہے لوگوں کو کھلے لفظوں میں بتا دینا کہ وہ گھر کی چاردیواری بنانے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اب کوئی غریب جو پہلے ہی 12 ہزار کی ہزار اینٹ خریدتا تھا‘ 14 ہزار روپے میں ہزار خرید کر اپنا بجٹ تباہ کرنے کی جرأت کیسے کرے گا۔ یہی حال کوئٹہ میں روٹی کی قیمت کا ہے جو نان بائیوں کی 12 روزہ ہڑتال کے بعد 25 روپے فی روٹی مقرر کر دی گئی۔ اب گنجی کیا کھائے گی کیا نچوڑے گی۔ بلوچستان میں اب روٹی کھانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ کوئی ہے جو ان عوام دشمن اقدامات کے سدباب کیلئے آگے آئے اور غریبوں کو ریلیف دے۔ یہ تو سراسر روٹی اور مکان چھیننے والی بات ہے۔ اب صرف کپڑے رہ گئے ہیں دیکھتے ہیں ان کے اتارنے کی باری کب آتی ہے اور عوام روٹی کپڑا اور مکان کی فکر سے چھٹکارا پاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گدھا یا ہاتھی‘ امریکی صدارتی انتخاب میں فیصلہ آج ہوگا
امریکہ میں دو جماعتی نظام سیاست کامیابی سے رائج ہے۔ طرز حکمرانی بھی صدارتی ہے۔ تمام اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں جو صدر بنتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں ڈیمو کریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی میں وائٹ ہائوس تک پہنچنے کیلئے ہر 4 سال  بعد مقابلہ ہوتا ہے۔ جو پوری دنیا کیلئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ امریکی پالیسیاں پوری دنیا پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی مگر سچ یہی ہے۔ ہماری تو مقابلے میں دلچسپی کی بڑی وجہ ان جماعتوں کے انتخابی نشان ہیں۔ ان میں ایک کا گدھا ہے دوسرے کا ہاتھی۔ ان دونوں کی معصومیت قدرے مشترک ہے۔ بظاہر دونوں سر جھکائے خاموش نظر آتے ہیں۔گدھے کو احمق اور ہاتھی کو چالاک سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں کے غصہ یا نفرت کا اظہار بھی خاصا خطرناک ہوتا ہے۔ گدھا دولتی مار کر اور ہاتھی سونڈ سے پٹخ کر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں ان میں سے کون تخت نشین ہوتا ہے۔ وائٹ ہائوس کا مقیم جو بھی ہو‘ ہمیں اس سے خیر کی توقع نہیں۔ کیونکہ گدھے سے خربوزے اور ہاتھی سے گنے کی ہماری فصل کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ اس لئے ہمیں پہلے اپنی فصلوں کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ گدھا ہو یا ہاتھی‘ اسے ہمارے کھیتوں میں داخل ہوکر منہ مارنے کی ہمت نہ ہو۔ دیکھتے ہیں امریکہ کا تاج ٹرمپ کے سر سجتا ہے یا جو بائیڈن کے۔دوسرے الفاظ میں گدھا جتیتا ہے یا ہاتھی آج معلوم ہو جائے گا۔ 
٭٭٭٭٭
تنخواہ میں گزارہ نہیں ، اضافی الائونس کیلئے خیبر پی کے میں 900 افسران کا چیف سیکرٹری کو خط 
گزارہ تو اس وقت کسی کا نہیں ہو رہا۔ جسے دیکھو وہ رو رہا ہے۔ کوئی حقیقی آنسو تو کوئی مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے۔ ہزاروں روپے تنخواہ اور دیگر مراعاتیں حاصل کرنے والے سرکاری افسر اگر کم تنخواہ کی بات کریں اور اپنے لیے سپیشل الائونس طلب کریں تو ذرا سوچیں غریبوں کا کیا حال ہو گا۔ ان افسروں نے چیف سیکرٹری کو خط لکھ کر اپنا دکھ سنا دیا۔ غریب لوگ کس کو خط لکھیں کس کے آگے اپنا دل چیر کر رکھیں۔ یہاں تو ’’کوئی محرم راز نہ ملدا‘‘ غریبوں کی تو سنتا ہی کوئی نہیں۔ ان کو پاس بھی کوئی پھٹکنے نہیں دیتا۔ وہ کس سے فریاد کریں۔ کس سے رزق میں اضافے کا مطالبہ کریں۔ کاش ہماری اشرافیہ خود ہی اس بات پر توجہ دے۔ غریبوں کا‘خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا دھیان رکھے۔ یہ انہیں لوازمات زندگی کی فراہمی میں مدد دیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مراعات یافتہ لوگ مزیدمراعات طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے شایدخود کو قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبران سمجھ لیا ہے جو مہنگائی غربت ، کم تنخواہ اور الائونس میں ازخود لاکھوں روپے کا اضافہ اسی بنیاد پر کرتے ہیں کہ اتنی تنخواہ اور الائونس میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا ۔ اب دیکھتے ہیں چیف سیکرٹری اپنے حامیوں اور موالیوں کی اس درخواست کا کیا جواب دیتے ہیں۔
٭٭٭٭ 

مزیدخبریں