زلمے خلیل زاد کی آرمی چیف سے ملاقات اور افغان امن عمل میں کامیابی کیلئے پاکستان کی کاوشوں کی ستائش
افغان امن عمل کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل نے گزشتہ روز اسلام آباد میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جس کے دوران علاقائی سلامتی کے امور‘ افغان امن عمل بالخصوص بارڈر مینجمنٹ اور افغانستان میں پائیدارامن کے قیام میں پیش رفت جیسے اہم موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سے ملاقات کے دوران زلمے خلیل زاد نے خطہ میں قیام امن کے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے مطلوبہ سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کی انتھک کاوشوں کی تعریف کی۔ دریں اثنا وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان اور خطے میں امن کیلئے پاکستان اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔ پاکستان خلوصِ نیت کے ساتھ مصالحانہ کوششیں بروئے کار لارہا ہے۔ گزشتہ روز جرمنی اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کے دوران انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان شروع سے ہی کہتے چلے آرہے ہیں کہ افغان مسئلہ کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ اس حوالے سے دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا انعقاد افغانستان میں قیام امن کیلئے انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان قیادت کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مذاکرات منطقی انجام تک پہنچانے چاہئیں۔
افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے ہی سب سے زیادہ قربانیاں دی اور نقصانات اٹھائے ہیں اس لئے افغانستان میں مستقل امن کی بحالی پاکستان کی اپنی ضرورت بھی ہے جبکہ پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری کو اپریشنل کرنے کیلئے بھی خطے میں پرامن فضا اور سازگار ماحول کا استوار ہونا ضروری ہے‘ اس کا دارومدار بہرصورت افغانستان میں امن کی بحالی پر ہی ہے۔ بے شک امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغان دھرتی پر شروع کی گئی جنگ میں مسلسل 12 سال تک سر پھٹول کیا اور نیٹو ممالک کے تین لاکھ کے قریب فوجیوں نے ہر قسم کے ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان سے لیس ہو کر اس افغان سرزمین پر چڑھائی کی جہاں غیور افغانیوں نے کسی غیرملکی باشندے کے پائوں کبھی ٹکنے نہیں دیئے اور افغانستان کو زیر کرنے کی نیت سے آنیوالی ہر غیرملکی فوج کو ہزیمتیں اٹھاتے ہوئے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ایسی پسپائی نیٹو فورسز کے مقدر میں بھی لکھی ہوئی تھی جنہوں نے افغان دھرتی کو کیمیکل ہتھیاروں اور کارپٹ بمباری سے عملاً ادھیڑ کر اور انسانی خون میں نہلا کر تورابورا بنایا اور اس جنگ میں مدرسوں‘ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور شہری آبادیوں پر بھی فضائی حملوں سے گریز نہ کیا مگر انکی مزاحمت کرنیوالے افغان مجاہدین اور دوسرے انتہا پسندوں نے افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کے قدم ٹکنے نہ دیئے چنانچہ نیٹو فورسز کو 2012ء میں مایوس و نامراد ہو کر واپسی کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا جن کی 2015ء تک مرحلہ وار واپسی کا عمل مکمل ہوا۔
امریکہ نے اس خطہ سے وابستہ اپنے مفادات اور کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کی منت سماجت پر اپنی فوجوں کا ایک حصہ افغانستان میں موجود رکھا جس کے باعث افغانیوں کی جانب سے انکی مزاحمت‘ گوریلا جنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ بھی برقرار رکھا گیا چنانچہ اب تک افغانستان میں امن کی بحالی ایک خواب ہی بنی رہی ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان کی سلامتی کے شروع دن سے درپے اسکے دیرینہ مکار دشمن بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا جس نے کابل انتظامیہ کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے افغان دھرتی پر دہشت گردوں کی تربیت کیلئے افغانستان کے مختلف شہروں میں 14 قونصل خانے قائم کئے اور پھر کابل انتظامیہ کی معاونت کے ساتھ یہ تربیت یافتہ دہشت گرد پاک افغان سرحد کے راستے سے پاکستان میں داخل کرنے کا گھنائونا سلسلہ شروع کر دیا چنانچہ اس منصوبہ بندی کے تحت بھارت نے دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے اور یہاں لسانی اور فرقہ ورانہ تعصبات کو ابھار کر دہشت گردی کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانے والے پاکستان کے اس کردار کی بنیاد پر اسکی سلامتی مضبوط بنانے کے بجائے اسکے ازلی دشمن بھارت کی سرپرستی شروع کر دی اور اسے اپنا فطری اتحادی قرار دیکر اسکے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے کرلئے جس سے اسکے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اس نے پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا۔
آج جبکہ امریکہ اپنی ضرورت کے تحت افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے جس کیلئے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے تو اس کیلئے بھی اسے پاکستان کی ہی معاونت حاصل کرنا پڑی جس نے اپنی بے لوث کوششوں سے بالآخر امریکہ اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار کر دی۔ دوحہ قطر‘ سعودی عرب اور اسلام آباد میں ہونیوالے مذاکرات کے مختلف مراحل کے نتیجہ میں اس وقت امن مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر آرہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ تو ان مذاکرات کے نتیجہ میں امریکی صدارتی انتخاب سے قبل امریکی قوم کو افغانستان میں قیام امن اور وہاں سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا تحفہ دینا چاہتے تھے تاہم انکی یہ خواہش تو پوری نہیں ہو سکی البتہ افغانستان میں امن کی بحالی کے امکانات ضرور روشن نظر آرہے ہیں جس کیلئے امریکہ پاکستان کے مثبت کردار کا معترف بھی ہے تاہم افغانستان کی بدامنی کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے بروئے کار لانے والے سازشی بھارت کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ رہے ہیں جو افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی گھنائونی سازشوں میں بھی مصروف ہے اور اس مقصد کیلئے وہ افغانستان‘ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں دہشت گردی کی وارداتیں کرا رہا ہے۔ امریکی جریدے نے اسی بنیاد پر بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد قرار دیا ہے اور گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کر سکتا ہے۔ کابل یونیورسٹی میں گزشتہ روز ایرانی کتب میلے کے شرکاء پر خودکش حملہ بھی بھارت کی اسی سازشیں کی کڑی ہو سکتا ہے جس میں 25‘ افراد شہید ہوئے جبکہ طالبان نے اس خودکش حملے سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ اس تناظر میں افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے بھارت سے بہرصورت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ اپنے مفادات کے تابع بھارت کی سرپرستی برقرار رکھے گا تو افغانستان میں امن کی بحالی ایک خواب ہی بنی رہے گی۔
بھارت کی سرپرستی جاری رکھ کر امریکہ علاقائی امن کی ضمانت حاصل نہیں کر سکتا
Nov 04, 2020