اقوام مغرب اوراسلامو فوبیا       

Nov 04, 2020

نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں مساجد پر حملوں کے بعد یہ تاثر کھل کر سامنے آگیا تھاکہ مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا زور پکڑتا جا رہا ہے جس کی وجہ مسلم مخالف متعصب ذہنیت کے سوا کچھ بھی نہیں،نیوزی لینڈ میں مسجد کے نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کے بعد وہاں کی وزیراعظم کا کردار ہر لحاظ سے قابل ستائش تھا،وہ اس حملے کے بعد مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں اور انہوں نے مسلمانوں پر حملے کے مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ہی دم لیا،نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا رویہ قابل ستائش بھی تھا اور دیگر مغربی ممالک کے سربراہان کے لیے قابل تقلید بھی۔۔۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور کئی دیگر مغربی ممالک کے قائدین بھی اسلامو فوبیا کے شکار نظر آئے،جس کی حالیہ مثال فرانس کے ملعون سربراہ مملکت کی شکل میں سامنے آئی کہ جس نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو سرکاری سرپرستی مہیا کرنے کا اعلان کیا،جس پر مسلم امہ میں غم و غصے کی لہر دوڑنا ایک فطری امر تھا کیونکہ کوئی بھی مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا،یہی وجہ ہے کے تمام مسلم ممالک میں جہاں عوامی سطح پرپرزور احتجاج شروع ہو گیا وہاں اسلامی ممالک کے سربراہان کابھی شدید ردعمل سامنے آیا،ترکی کے صدر جناب طیب اردگان نے تو فرانسیسی صدر کو اپنے دماغ کے علاج کا مشورہ دیا،اسکے ساتھ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی ملعون فرانسیسی صدر کو خوب لتاڑااور فرانسیسی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا،اسکے ساتھ ساتھ سینٹ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میںمذمتی قرادادیں بھی منظور کی گئیں،فرانس نے اس رد عمل پر کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے ترکی اور پاکستان کو فرانس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دیا ،جس پر کوئی بھی حیرت اور افسوس کا اظہار کیئے بغیر نہ رہ سکا،شاید فرانس دانستہ طور پر یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ گستاخانہ خاکوں کی سرکاری سرپرستی میں اشاعت اس کا اندرونی معاملہ نہیں ہے اور اس طرح کی ملعون حرکت تمام عالم کے مسلمانوں کے لیے گہرے رنج و غم کا باعث ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اس طرح کی ملعون حرکتوں سے مجروح کرنے کو جب سرکاری سرپرستی ملنی شروع ہو جائے تو اسی طرح کے رد عمل سامنے آتے ہیں،مختلف مسلم ممالک کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا یقینی طور فرانس کو یہ احساس دلائے گا کہ وہ اپنے آپ کو ایک گہری دلدل میں دھکیل رہا ہے،عمران خان نے بجا کہا ہے کہ مغربی ممالک دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں اور ہولوکاسٹ پر بات کرنے کی تو اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن مسلمانوں کے نبیؐ کی شان میں گستاخی کو سرکاری سرپرستی دیتے ہوئے اپنے دلوں میں چھپے ہوئے اسلامو فوبیا کی نشاندہی کرتے ہیں،دوسرے اسلامی ممالک کو بھی عمران خان اور طیب اردگان جیسا واضح اور شدید قسم کا رد عمل ہی دینا چاہیئے،بدقسمتی سے اس معاملے میں بہت سے اسلامی ممالک کے سربراہان اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے مصلحت کا شکار نظر آتے ہیں اور کھل کر اپنا ردعمل نہیں دیتے ،اگر مسلم ممالک اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،ایسے معاملات میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہو جائیں تو کسی مغربی ملک کے کسی سربراہ کی کیاہمت کہ وہ ہمارے نبیؐ کی توہین و تضحیک کا مرتکب ہو،اس لیے تمام مسلمان ممالک کو یکجا ہو کر فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کرنا چاہیئے اور فرانس کو یہ احساس دلانا چاہیئے کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہے،اس سلسلے میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کوبھی اپنا کردار کھل کر ادا کرنا چاہیئے۔اس سارے معاملے میں انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کا کردار انتہائی شرمناک ہے اور ایسے معاملات میں ان کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے ،ان کو سمجھنا چاہیئے کہ کسی بھی انسان کا یہ حق ہے کے اس کے مذہبی جذبات کو کسی طور پر بھی مجروح نہ کیا جائے ،اس لیے انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کو اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرتے ہوئے مسلمانوں کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے اس فرانسیسی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیئے،تا کہ تمام دنیا کے تمام انسان ان انسانی حقوق کی تنظیموں کے بارے میں ایک اچھا تاثر قائم کر سکیں۔

مزیدخبریں