سی این جی اور ایل پی جی پر دوڑتی گاڑیوں کو چلتے پھرتے بم سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا۔وین اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ناقص سلنڈر کے باعث اکثر کوئی نہ کوئی حادثہ رونما ہو جا تا ہے جس سے نقصان صرف عام شہریوں کا ہی ہوتا ہے ۔جب کہ شہر قائد میں تقریبا پبلک ٹرانسپورٹ اور اسکولز وین کے اندر غیر معیاری اور ناقص سلنڈر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ کسی بھی وقت حادثے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 30 لاکھ گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں ، جبکہ تقریبا 4 لاکھ سے زائد گاڑیوں میں ناقص اور غیر معیاری سلنڈر استعمال کیا جا رہا ہے،شہر قائد میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ میں غیر معیاری سلنڈر استعمال کیا جاتا ہے جو بس کے اندر مسافروں کے پاس رکھا ہوا ہوتا ہے ۔ہائڈروکاربن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے مطابق گاڑی کا سلنڈر ہر 5 سال کے بعد چیک کیا جاتا ہے اور فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے لیکن افسوس پاکستان میں گاڑیوں کے غیر معیاری سلنڈر کو کوئی چیک کرنے والا نہیں اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹر مالکان سلنڈر کی فٹنس چیک کروا کر سرٹیفکیٹ لیتے ہیںبلکہ پبلک ٹرانسپورٹر مالکان سستے داموں پرانا اور غیر معیاری سلنڈر خرید کر اس پر رنگ کر کے استعمال کرتے ہیں۔آپ کے اس موقر جریدے کے توسط سے میں حکام بالا کی توجہ اس اہم مسئلہ کی جانب دلانا چاہونگا کہ خدا راشہر میں پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر گاڑیوں میں لگے غیر معیاری اور ناقص سلنڈر کو چیک کیا جائے اور ٹرانسپورٹ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ معیاری سلنڈر کا استعمال یقینی بنائے اور سی این جی اسٹیشنز مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ کسی بھی غیر معیاری سلنڈر میں ہر گز گیس نہ بھریں تاکہ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہ آسکے۔سید مبشر امیر۔کراچی