مار گلہ پلز پر ہو ٹل  ٹھٹھہ تک تجاوزات ہیں، چیف جسٹس ، چاروں سیکر ٹر یز  جنگلا ت طلب

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمدکا کہنا ہے کہ کے پی کے میں درخت لگانے کے حوالے سے غیر ملکی رپورٹس دکھا کر متاثر نہ کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 19 کروڑ درخت لگ جائیں تو پورا کے پی کے ہرا بھرا ہو جائے۔ کے پی کے حکام کا کہنا ہے کہ درخت نہیں لگائے بیج پھینک کر درخت اْگا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکرٹری جنگلات خیبرپی کے کی عدم حاضری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کیوں نہ سیکرٹری جنگلات کے وارنٹ نکال دیں۔ کے پی کے میں مارگلہ کی پہاڑوں پر ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز بن گئے ہیں، درخت کاٹ کر نیشنل پارک میں تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مارگلہ ہلز تو نیشنل پارک ہے وہاں تعمیرات کیسے ہوسکتی ہیں؟، جس پر ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختون خواہ نے کہا مارگلہ ہلز کا جائزہ لیکر رپورٹ پیش کرینگے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا جو پہاڑ الاٹ کر چکے ہیں ان کا کیا کرینگے، کمراٹ، سوات اور نتھیا گلی میں درخت کٹ چکے ہیں، محکمہ جنگلات کا ٹمبر کا کاروبار چل رہا ہے، گھروں میں ڈلیوری پہنچ جاتی۔ دوران سماعت محکمہ جنگلات کے حکام نے عدالت کو بتا یا کہ خیبرپختونخوا میں 19 کروڑ درخت لگ چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں غیرملکی میڈیا رپورٹس دکھا کر امپریس نہ کریں، پشاور تو پورا شہر  اجڑا ہوا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا19 کروڑ درخت لگ جائیں تو پورا کے پی کے ہرا بھرا ہو جائے، انیس کروڑ درختوں کیلئے پودے کہاں سے لیے؟۔ محکمہ جنگلات کے حکام نے بتایا کہ زمین پر بیج پھینک کر درخت اگائے جاتے ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بیج پھینک کر سارا کام اللہ کے حوالے کر دیا گیا ہے، پورے ملک کی طرح بیج بھی اللّٰہ کے ہی حوالے ہیں۔ عدالت نے ٹین بلین سونامی منصوبے کی تفصیلات مانگی تھیں، ریکارڈ مانگنے کی وجہ یہی تھی کہ دیکھا جائے درخت کاغذوں میں تو نہیں لگے۔ چیف جسٹس نے کہا کے پی کے میں تو جنگلات ہی جنگلات ہونے چاہئیں۔ دوران سماعت سیکرٹری جنگلات سندھ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ سندھ میں 57 کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا مجھے نہیں لگتا سندھ حکومت نے درخت لگانے پر کوئی پیسہ خرچہ کیا ہے، اگر درختوں پر 2 ہزار 323 ملین خرچ کیے گئے ہوتے تو پورا سندھ ہرا بھرا ہو چکا ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاسندھ کی کتنی اراضی پر جنگلات ہیں؟ جس پر سیکریٹری جنگلات سندھ نے کہا سندھ میں 27 لاکھ ایکڑ اراضی پر جنگلات ہیں۔ ٹین بلین سونامی میں سے سندھ میں 3 بلین درخت لگائے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا سندھ میں جو پودا لگتا ہے وہ بکری کھا جاتی ہے۔ کراچی سے ٹھٹھہ جائیں، تمام جنگلات کی زمین پر تجاوزات ہیں، سندھ میں تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگلات اگائیں۔ سیکریٹری جنگلات بلوچستان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زیارت میں درختوں کو کاٹ کاٹ کر جلایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کوئٹہ سے چمن جائیں کوئی درخت نظر نہیں آتا ہے، کوئٹہ کے پہاڑوں پر درخت کیوں نہیں لگائے جا سکتے؟۔ جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ درختوں کو مٹی اور پانی چاہئے ہوتا ہے اور بلوچستان کے پہاڑ پتھریلے ہیں، تاہم لسبیلا اور کوسٹل ہائی وے کے اوپر 22 ملین درخت لگائے جائیں گے،فوج کے ساتھ مل کر بلوچستان میں شجرکاری پروجیکٹس لگا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکراچی گوادر کوسٹل ہائی وے پر درخت لگائیں، جس کے بعد سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت میں تمام سیکرٹریز جنگلات کو ذاتی حثیت میں طلب کر تے ہوئے تمام صوبائی سیکرٹریز جنگلات کو ایک ماہ میں شجرکاری منصوبوں سے متعلق رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...