کراچی(کامرس رپورٹر)پولینڈ کے سفیر ماکیج پسارسکی نے کہا ہے کہ پاکستان اور پولینڈ کے درمیان تجارت میں بہتری نظر آرہی ہے جو 722 ملین ڈالرپر موجود ہے اور یہ بڑی حد تک 600 ملین ڈالر کے ساتھ پاکستان کے حق میں ہے جس کی بنیادی وجہ جی ایس پی پلس کے فریم ورک کے اندر پولینڈ کو ٹیکسٹائل، چمڑے اور کھیلوں کے سامان کی پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہے۔ یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے دوران اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر توصیف احمد، نائب صدر محمد حارث اگر، پولینڈ کے اعزازی قونصل جنرل مرزا عمیر بیگ اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔پولینڈ کے سفیر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ پولینڈ کے تجارتی خسارے سے نمٹنا میرے لیے ایک چیلنج ہے۔اس لیے وہ اس ملک کو پولینڈ کی برآمدات کو بہتر بنا کر اس خسارے کو کم کرنے کے طریقے اور ذرائع تلاش کریں گے چونکہ اس ضمن میں بہت صلاحیت موجود ہے لہٰذا ہمیں موجودہ تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جو بہت اہم ہے۔ انہوں نے تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کے سی سی آئی کی تجاویز کو سراہتے ہوئے کراچی کی تاجر برادری کو مشورہ دیا کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے پولینڈ آئیں کیونکہ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ کار کام کرتے ہوئے پورے یورپ میں اپنا کاروبارپھیلا سکتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ پولینڈ کی آئل اینڈ گیس ایکسپلوریشن کمپنی جو گزشتہ 25 سالوں سے پاکستان میں کامیابی کے ساتھ کام کر رہی ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر چٹانوں کی ساخت سے ٹائٹ گیس نکالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔یہ کمپنی مزید کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔اس لیے وہ اضافی مراعات کے لیے درخواست دے رہے ہیں تاکہ وہ مقامی پاکستانی گیس نکالنے کے لیے اپنے آپریشنز کو بڑھا سکیں جو صرف مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے اور درآمد شدہ ایل این جی سے چار گنا سستی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ زراعت، ٹیکسٹائل، لیدر، فارماسیوٹیکل اور ڈیری کے شعبے بہت اہم ہیں جہاں دونوں ممالک کی تاجر برادری آپس میں تعاون کر سکتی ہے۔ جبکہ پولینڈ بینکنگ سیکٹر، فنٹیک، ڈیجیٹل سیکیورٹی، ڈرونز، اسمارٹ سٹیز اور دیگر تمام چیزوں میںٹیکنالوجیز بھی پیش کر سکتا ہے جن کا تعلق ڈیجیٹلائزیشن کے نئے دور سے ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں اور حالیہ سیلاب سے پاکستان کو نقصان پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولینڈ پانی کے انتظام اور قابل تجدید توانائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی پیش کر سکتا ہے۔ہمارے پاس بہت زیادہ صلاحیت ہے لیکن ہمیں مل بیٹھ کر ان شعبوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے جہاں سب سے زیادہ مواقع ہیں۔انہوں نے مشترکہ بزنس فورم کے قیام کے خیال کو سراہتے ہوئے کراچی چیمبر کو پولینڈ میں اپنے ہم منصب چیمبرز آف کامرس کے ساتھ جوڑنے کے لیے پولش سفارتخانے کے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا تاکہ سیمینارز اور ورکشاپس کے زریعے دونوں ممالک کے کاروباری افراد کو ایک دوسرے کو جاننے اور ترجیحات کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے ۔قبل ازیں صدر کے سی سی آئی محمد طارق یوسف نے پولش سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ پاکستان اور پولینڈ کے درمیان موجودہ تجارتی حجم بہت کم ہے جس کو دونوں جانب سے مشترکہ کوششوں کے ذریعے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔پولینڈ کے سفارتخانے کی مدد اور تعاون کے حصول کے لیے انہوں نے ایک مشترکہ بزنس فورم کے قیام کی تجویز پیش کی تاکہ نہ صرف بزنس ٹو بزنس رابطوں کو فروغ دیا جا سکے بلکہ توانائی کے علاوہ زراعت، ٹیکسٹائل، لیدر، فوڈ اور فارماسیوٹیکل سیکٹر سمیت دلچسپی کے دیگر اہم شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے امکانات بھی تلاش کیے جاسکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دودھ اس سے منسلک مصنوعات پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملکوں میں سے ایک ہونے کے باوجود ڈیری مصنوعات کی قدر میں اضافہ نہیں کر سکا لہٰذا ڈیری سیکٹر میں پولش مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیری مصنوعات کی قدر میں اضافے میں ہماری مدد کی جاسکتی ہے۔انہوں نے پولینڈ کی تاجر برادری کو سی پیک کے تحت قائم ہونے والے خصوصی اقتصادی زونز میں کاروبار شروع کرنے کی دعوت دی۔صدر کے سی سی آئی نے پولینڈ کی تاجر برادری کو پاکستان میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا مشورہ دیا جو یقینی طور پر انہیں مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک آسان اور انتہائی سستی رسائی فراہم کرے گا۔
پولش سفیر