مجھے یادہے ۔ ہسپتال کی آئی سی یو میں جب اللہ کی مرضی سے مریض کی آخری سانسیں دیکھنے اور دل کی سیدھی پٹی نکالنے کے بعد ہم ان کے لوحقین کو رحلت کی خبر سناتے تھے تو اپنے لہجے کا کھوکھا پن پوری رات ساتھ رہتا تھا ۔ ڈاکٹر کی اس کشمکش کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ ڈیتھ سرٹیفیکٹ)ڈی سی( نامی کتنے ہی ٹکڑوں پر اپنا نام لکھا اور لواحقین کے انگوٹھوں کے نشان لگوائے۔ گھر واپسی کے رستے پر ایک ایک چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جایا کرتا تھا ۔ گرد ے فیل ہو جانے کے باعث فوت ہو جانے والی ننھی بچی کے ابو جی کا ہاتھ ڈی سی پر سائن کرتے وقت کانپ رہا تھا ۔ جوان حاملہ خاتون جو چل بسی اسکی نو زائیدہ بچی نرسری کے شیشے میں اس بات سے بے خبر آنکھیں بند کئے سو رہی تھی ۔ گندم کی گولی کھا کر آئے اس نوجوان کی آنکھوں سے وصال کے وقت آنسو گر رہے تھے ۔ کتنی کہانیاں۔ کتنی چیخیں اور کتنے آنسو لے کر ایک ایمرجنسی کرنے والا ڈاکٹر گھر پہنچتا ہے ۔ ایک انجانا سا دکھ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے کہ اگر اس طرح سے کوشش کرتا تو یہ نتیجہ رہتا اور کیا میں نے اپنی پوری کوشش کی ؟
یہی ڈاکٹر گھر پہنچ کر دروازے پر کھڑی اپنی ننھی بیٹی کو اس کے فیورٹ کارٹون کریکٹر کی آواز میں خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ اچانک رول چینجنگ ایک ڈاکٹر کا اچانک ماں باپ بیٹا بیٹی کی فیز میں آنا آسان کام نہیں ہے۔ اورپنکھے کی ہوا سے اڑتے ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ پر اپنے جیتے جاگتے ہاتھوں سے سائن کرنا بھی آسان کام نہیں ۔