یوں تو میں ثمینہ کو کافی سالوں سے فیس بک کے ذریعے جانتی تھی ایک فنکشن میں میری ملاقات اس سے ہو گئی۔فنکشن کے اختتام میں اس نے اپنی کتاب مجھے دے دی۔گھر پہنچ کر میں نے اس کتاب کو دیکھا اور اپنی پہلی فرصت میں اس کا پہلا افسانہ (ہم کہاں کے سچے تھے)پڑھا تو کافی حد تک بہت اچھا لگا۔سوچا کہ آجکل بیٹی آئی ہوئی ہے باقی کی کتاب پھر پڑھ لوں گی۔۔۔بیٹی جب چلی گئی تو میں نے کتاب بہت ڈھونڈی نہ جانے کہاں رکھ دی تھی۔ کچھ دن ہی ہوئے تو نیلم بشیر کے اعزاز میں فنکشن تھا تو ثمینہ جب ملی تو میں نے اسے کہا،کتاب گھر کے کسی کونے میں ادھر ادھر پڑی ہو گی۔ انشااللہ پڑھوں گی تو اپنی رائے بھی دونگی۔
اس افسانوں کی کتاب کا نام ’’کہانی سفر میں ہے‘‘۔ میرے خیال سے زندگی بھی ایک سفر ہے،جو کہانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔بڑی ہی محنت سے میں نے کتاب کو اپنی لائبریری سے ڈھونڈ لیا،اس افراتفری کے دور میں تنائو اور کچھائو سے بھری اس دنیا میں اچانک کھوئی ہوئی کتاب سامنے آجائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو گی۔
’’کہانی سفر میں ہے‘‘۔یہ افسانوں کی کتاب ہے، پہلا افسانہ پڑھ چکی تھی وہ میں نے پھر پڑھااور میں اسکی گرفت میں آچکی تھی،پڑھتے پڑھتے سوچنے لگی۔ آج کے دور سے یہ کہانیاں کتنی مطابقت رکھتی ہیں۔ جس طرح ہر شخص ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح اسکی تحریر بھی مختلف ہوتی ہے، ہر ادیب کا جی کرتا ہے کہ میں اچھوتے انداز میں لکھوں،ثمینہ سید کسی حد تک کامیا ب بھی ہوئی ہیں،انداز بالکل مختلف ہے،بڑا دردمند دل رکھنے والی لکھاری ہیں۔پیش لفظ میں سلمیٰ اعوان لکھتی ہیں ۔ ’’ثمینہ کا سادہ خوبصورت اور پر تاثیر اسلوب فنی پختگی کا حامل ہے،۔وہ افسانے میں ثمینہ کا منفرد مقام متعین کر رہا ہے۔ اسکے کردار ماورائی یا تخیلاتی نہیں ہیں، وہ ان کا انتخاب اپنی اور میری دنیا سے کرتی ہے، اپنے ماحول اپنے گردوبیش میں بکھرے کردار سمیٹتی ہے، اپنے ارد گرد دائیں بائیں پھیلے دکھوں سے ایک لمحہ کیلئے بھی غافل نظر نہیں آتی‘‘۔میں نے مطالعہ کے دوران ہی محسوس کر لیا کہ ہر کہانی اپنی نوعیت کی بہترین کہانی ہے۔یہ چیزیں اس کا گہرا ویژن ہے جو مثبت طریقے سے پیش کرتی ہے۔یوں تو افسانے بہت ہی اچھے ہیں،مگر مقدمہ افسانہ پڑھ کر محسوس ہوا کہ اسکی سوچ میں بڑا ہی گہرا پن ہے عام کہانی کو بھی خاص بنا کر لکھ سکتی ہے آج کے دور میں جو ہو رہا ہے نوجوان نسل اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ ہاتھ کر جاتی ہے۔شادی ہوتے ہی بوڑھے والدین کو چھوڑ چھاڑ کر نئی دنیا بسا لیتے ہیں۔ مقدمہ افسانے میں باپ نے اپنے تین بچوں پرمقدمہ دائر کر دیا ہے جو میں نے تم تینوں پرخرچ کیا تم مجھے واپس کرو۔ اس مقدمہ افسانے میں عدالت میں بیٹھے بوڑھے والد نے جج صاحب کو کہا۔
میرے تینوں بچے اڑ گئے ہیں میں اور میری بیوی تنہا رہ گئے ہیں۔ ہم ان کے ماں باپ زندگی دینے والے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ان کی بیویوں کو ڈر ہے کہ ہم ان کے شوہر ان سے چھیننا چاہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں اپنے بڑے بیٹے یاسر کا بیٹا اور دوسرے بیٹے کی بیٹی بذریعہ عدالت ہمیں دے دیں یہ سن کر عدالت میں موت جیسے خاموشی چھا گئی۔ سب باپ کے پاس دوڑے آئے اور گلے لگ گئے اور باپ نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔
یہ کہانی پڑھ کر اندازہ ہوا ثمینہ معمولی واقعات کو بڑی خوبصورتی سے غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ جتنی بھی کہانیاں ہیں اس کے کردار جیتے جاگتے ہیں۔ جو کوئی اہم کردار سامنے آتا ہے وہ اپنی کہانی کا موضوع بنا لیتی ہے۔
گوکہ درد دل رکھنے والی خاتون ہے۔ ادب کی دنیا میں اپنی اچھی تحریروں کی وجہ بڑی جلدی اپنا مقام بنا لیا ہے معاشرتی ناہمواریوں سے قاری کو آگاہ کرتی ہے۔ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔اپنی گھٹن کو مٹانے کیلئے اپنی کہانیوں کی بڑی عمدہ ترجمانی کی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے افسانے انہوں نے لکھے ہیں چند افسانے جو مجھے بہت اچھے لگے ان کا نام میں لکھ دیتی ہوں ’’میں طاہرہ کہانی سفر میں ہے ہاتھ میرے خالی ہیں جنت دو قدم پر۔ معافی نہیں مل سکتی ‘‘۔
ثمینہ کا اپنا ایک خاص سٹائل ہے۔ منفرد انداز سوچ اور مشاہد ہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں بے ساختگی اور قدرتی پن ہے۔ اس نے اپنی کہانیوں کو خوبصورتی سے جو طبع آزمائی کی ہے۔ وہ قابل داد ہے۔ اس کا طرز تحریر خاصا دلچسپ ہے ان کی کتاب جب قاری کے ہاتھ میں آتی ہے تو اس کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے وہ ادھر ادھر دیکھ نہیں سکتا اور کتاب پڑھے بغیر رہ نہیں سکتااس کی کتاب کا عنوان’’کہانی سفر میں ہے‘‘مجھے پھر کہنا پڑتا ہے کہ کہانی تو سفر میں ہے تو زندگی بھی سفر میں ہے۔اس زندگی کے سفر میں ثمینہ نے ابھی اور بہت سی اچھی اچھی کتابیں لکھنی ہیں۔
ثمینہ نے کہانیوں کا جو چھوٹا سا پودا لگایا تھا اب وہ تن آور درخت بن چکا ہے اور چھائوں بھی دینے لگا ہے بہت سے لوگ اس کی کہانیوں کو پڑھ کر مستفید ہو رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اپنی تحریر کے ذریعے خوب پھلے پھولے(آمین)۔
ثمینہ سید کے افسانے ’’کہانی سفر میں ہے‘‘
Nov 04, 2022