کراچی (نیوز رپورٹر) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 12 سالوں کے دوران صوبائی حکومت کو متعدد چیلنجز جس میں بدترین امن و امان، 2010 اور 2011 کے سیلاب، کوروناوائرس اور اب 2022 کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس حقیقت کے باوجود حکومت نے صوبائی اور قومی ترقی میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کو وزیراعلی ہاس میں بریگیڈیئر طارق نیاز کی قیادت میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) کی سیکیورٹی ورکشاپ-24 کے 75 رکنی وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات شرجیل میمن، وزیر بلدیات ناصر شاہ، چیف سیکرٹری سہیل راجپوت، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی، سیکرٹری داخلہ سعید منگنیجو، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری فیاض جتوئی اور دیگر متعلقہ سیکرٹریز بھی موجود تھے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ جب 2008 میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو صوبے میں امن و امان کی بدترین صورتحال تھی جو صوبائی حکومت کیلئے پہلا اور سب سے بڑا چیلنج تھا۔ کراچی 2014 میں بین الاقوامی جرائم انڈیکس میں دنیا کا چھٹا خطرناک شہر تھا اور اب یہ 128 ویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ بنتے ہی کاروبار اور دیگر تمام سرگرمیاں جیسے کہ معاشی، ترقیاتی، تعلیمی، ثقافتی سرگرمیاں ٹھپ ہو جاتی ہیں اور شہر کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کے بعد امن و امان بحال ہوا۔ وزیراعلی نے کہا کہ افغان جنگ بھی دہشت گردی کی ذمہ دار ہے اس لیے نیشنل ایکشن پلان (NAP) کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوچکے اور اسکے بہترین نتائج برآمد بھی ہوئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ ایک تکثیری معاشرہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ بقائے باہمی پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ایک بھی خودکش حملہ آور کا تعلق سندھ سے نہیں ہے سب امپورٹ کیے گئے ۔کراچی میں سرمایہ کاری: وزیراعلی نے کہا کہ کراچی میں سرمایہ کاری بنیادی انفرااسٹرکچر اور خدمت کیلئے ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں بنیادی طور پر اندرونی سڑکوں، پانی کی فراہمی، نکاسی آب، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، برساتی نالوں اور ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 137.3 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 73 بڑے منصوبوں کے ساتھ 150 کلومیٹر سڑکیں برساتی پانی کی نالوں کے تحت تعمیر کی گئیں جس میں14فلائی اوور،انڈر پاسز اوربڑی شاہراوں پر پل وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہر میں چار بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (BRT)پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کیلئے 31 بڑی اسکیمیں اور صحت اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کیلئے 28 بڑی اسکیمیں جاری ہیں۔تھر کول: وزیراعلی نے کہا کہ تھر میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار سندھ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تھر میں کوئلے کی کان کنی شروع ہوئی تو لوگ اس کا مذاق اڑا رہے تھے لیکن اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ جب کوئلے کی کان کنی اور پاور پلانٹ کے منصوبوں پر کام شروع ہونے جارہا تھا تو تھر تک مشینری پہنچانا ایک بڑا چیلنج تھا اس لیے صوبائی حکومت نے دریائے سندھ پر سجاول پل تعمیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں کول فیلڈ تک سڑکوں کا ایک وسیع جال بچھایا اور پھر وہاں ایک ایئرپورٹ بھی بنایا تاکہ سرمایہ کار اور دیگر ارکان آسانی سے سفر کرسکیں، اور ان سب ترقی کے بعد اگر دیکھا جائے تو آج تھر قومی گرڈ میں تقریبا 1000 میگاواٹ بجلی کا حصہ ڈال رہا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ نوری آباد پاور پراجیکٹ جس میں انکی حکومت کی جانب سے کراچی کو بلاتعطل 100 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے شیئرز ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ ہم نے دریائے سندھ پر ایک اور پل سر آغا خان جھرک-ملاں کاتیار بھی تعمیر کیا ہے جبکہ تیسرا پل ابھی زیر تعمیر ہے جو کندھ کوٹ کو گھوٹکی سے ملاتا ہے تاکہ تینوں صوبوں، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے درمیان گاڑیوں کی آمدورفت میں آسانی ہو۔ترقیاتی حکمت عملی:اپنی ترقیاتی حکمت عملی سے متعلق بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ تعلیمی اداروں کو معیاری تعلیم کیلئے انفراسٹرکچر فراہم کرنے اور انرولمنٹ بڑھانے ، صحت کی سہولیات کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے ،موجودہ صحت کے اداروں میں اصلاحات لانے، زرعی پیداوار اور ویلیو چین میں اضافہ کرنا، زراعت کیلئے پانی کا تحفظ کرنا، صنعتی اور میونسپل وسائل کا استعمال، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے، بڑے شہروں کے درمیان سڑکوں کے رابطوں کو بہتر بنانے اور صوبے کے دیہی علائقوں سمیت کراچی کیلئے ماس ٹرانزٹ اور سیف سٹی منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی، غذائی تعاون فراہم کرنے، کمیونٹی انفراسٹرکچر فنڈز، وافر آمدنی پیدا کرنے کے مواقع اور غربت میں کمی کیلئے کم لاگت کے مکانات تعمیر کرنے پر کام کر رہے ہیں۔سیلاب: سیلاب 2022کے معاشی اثرات پر پوسٹ ڈزاسٹر نیڈ اسیسمنٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعلی نے کہا کہ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2022 کے جی ڈی پی کے 4.8 فیصد کے برابر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2022 میں سیلاب کے براہ راست اثرات پر جی ڈی پی میں نمایاں نقصان تقریبا 2.2 فیصد رہنے کا امکان لگایا گیا جس میں زراعت میں سب سے زیادہ 0.9 فیصد کمی آناہے۔ وزیراعلی نے کہا کہ مثالی بحالی اور تعمیر نو کیلئے2023 کے بجٹ میں قومی ترقیاتی اخراجات کا 1.6گنا امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بنیادی اور مجموعی مالیاتی خسارے پر اثر بڑھے گا اور خوراک اور ضروری اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ وزیراعلی کے مطابق غربت کی بلند شرح سمیت قومی غربت کی شرح میں 3.7سے 4.0فیصد پوائنٹس اضافے کا امکان ہے جس سے 8.4سے 9.1ملین افراد غربت میں دھکیل دئے جائیں گے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں غربت میں 8.9 سے 9.7فیصد اضافہ ہوگا، سندھ میں کئی سمتوں پر غربت میں 10.2فیصد اضافہ متوقع ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صوبوں میں بالخصوص سندھ میں ہاسنگ شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو کہ کل ہاسنگ نقصانات کا 83 فیصد ہے۔ مزید بتایا کہ تقریبا 4410 ملین ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا اور 0.8 ملین مویشیوں کے ہلاک ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزیراعلی نے کہا کہ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جس نے ان شعبوں میں رجسٹرڈ نقصانات کی کل مالیت کا 72 فیصد حصہ ڈالا ہے۔ اور مزید کہا کہ سندھ نے جنگلات کے شعبے میں 1.8 ارب روپے 8.4 امریکی ڈالر کا سب سے زیادہ نقصان ہوا جوکہ جنگلات کے کل نقصانات کا 77 فیصد بنتاہے۔