گوجرانوالہ میں لانگ مارچ کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت فیصل جاوید، حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے احمد چٹھہ اور چوہدری محمد یوسف بھی زخمی ہیں۔ احمد چٹھہ کی حالت تشویش ناک ہے۔ پولیس کے مطابق گوجرانوالہ میں اللہ والا چوک میں پی ٹی آئی کے استقبالیہ کیمپ کے قریب عمران خان کے مرکزی کنٹینر پر فائرنگ کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور بھگدڑ مچ گئی جب کہ موقع پر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو فوری طور پر حراست میں لے لیا۔ حملہ آور کا ویڈیو بیان بھی جاری ہوا ہے اور اس کے مطابق اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے، وہ اکیلا ہے جس بنیاد پر اس نے عمران خان کے کنٹینر کو نشانہ بنایا ہے وہ سب سے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان میں جس رفتار کے ساتھ سیاسی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے وہ ہمارے مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ میں یہاں حملہ آور کے وہ الفاظ دہرانا نہیں چاہتا لیکن حملہ آور کے الفاظ سیاست دانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سیاسی قائدین جس انداز میں عدم برداشت کو ہوا دے رہے ہیں اس کے نتائج نہایت تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں، شدت پسندی کی کوئی بھی صورت ملک کے لیے نقصان دہ ہے وہ بھلے مذہبی شدت پسندی ہو یا پھر سیاسی انتہا پسندی۔ پاکستان نے انتہا پسندی کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے اور اب دوبارہ اس قسم کی کسی بھی صورتحال کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ طویل جنگ کے بعد ملک میں امن بحال ہوا ہے، فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلے ہیں، ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے کیا اب ہم ایک مرتبہ پھر خود اپنے ہاتھوں سے اچھے بھلے ملک کو آگ میں دھکیل رہے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ کو شوکت خانم ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے اسد عمر اور پنجاب کے ایک وزیر نے بیان جاری کیا ہے۔ یہ بیان بتاتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف بحثیت جماعت انتشار اور تقسیم کے راستے پر ہے۔ ان کے لیے صرف اور صرف موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا اور کسی بھی طریقے سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا سب سے بڑا مقصد معلوم ہوتا ہے کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ذمہ داران جس انداز میں بیان بازی کر رہے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ملک میں تشدد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کو اداروں کے ساتھ لڑانا چاہتے ہیں۔ حملہ آور کا ویڈیو بیان سامنے آنے کے بعد کوئی بغیر تفتیش، تحقیق کے کیسے ملک کے وزیراعظم ، وزیر داخلہ یا کسی سینئر سیکیورٹی آفیسر پر الزام عائد کر سکتا ہے اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ بھی سوچے سمجھے بغیر اس بیان کو آگے پہنچا رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے یا حادثاتی طور پر چیزیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ سارے واقعات اتفاقیہ ہیں ان تمام معاملات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت مکمل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت غلط بیانی اور جھوٹ کو پروان چڑھا رہی ہے، اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور جان بوجھ کر سیاسی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے معصوم لوگوں کو اداروں کے خلاف اکسا رہی ہے۔ جتنے بھی لوگ اس عمل کا حصہ ہیں انہیں اس حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری اپنی جماعت کے کارکنوں کو حملوں پر اکسا رہے ہیں، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان حملوں کے نتیجے میں نقصان کس کا ہو گا اور اگر اس مشق کے بعد بھی ان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا یہ بیانات آگ لگانے کے مترادف ہیں کیا کسی قومی سطح کی سیاسی جماعت کے اہم رہنما ملک کے سابق وفاقی وزیر کو ایسی زبان زیب دیتی ہے۔ کاش کہ سیاست دان ملک و قوم کے بہتر مفاد اور مستقبل کی خاطر ضد اور انا کے خول سے باہر نکلیں۔ اللہ کا واسطہ ہے بیان بازی بند کریں، ملک کا امن تباہ نہ کریں، تحمل اور رواداری کا درس دیں۔ آگ نہ لگائیں۔ یہ پیغام دونوں کے لیے ہے۔ عمران خان کے طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں، انہوں نے پوری زندگی ملک میں گذاری ہے ان کے پاس بھی باہر جانے کا راستہ موجود ہے لیکن وہ اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی دیگر حکمرانوں کی طرح غلطیاں کی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ پاکستان کی بہتری یا فلاح نہیں چاہتے۔ وہ اس وقت ناصرف ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہیں بلکہ اکیلے اپوزیشن کرتے ہوئے وسائل سے محروم طبقے کو اکٹھا کر کے حکومت پر دباو¿ قائم رکھے ہوئے ہیں، احتجاج کا راستہ بھی جمہوری راستہ ہے لہٰذا انہیں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عمران خان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت دل بڑا کرے، سیاسی جماعتوں کی طرف سے حملے کی مذمت خوش آئند ہے لیکن مذمت سے نکل کر عملی اقدامات کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔
اب حالات جس طرف جا رہے ہیں اس کے بعد پی ٹی آئی کو اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی ضرور کرنا ہو گی۔ گولیاں، خون، جنازے ایسی سیاست کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے سیاست دان میڈیا پر الجھنے کے بجائے پارلیمنٹ میں مل بیٹھیں۔ وہاں بیٹھیں گے تو سڑکوں اور حوالات میں نہیں بیٹھنا پڑے گا لیکن یہ فیصلہ خود سیاست دانوں نے کرنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں یا پھر سڑکوں اور حوالات کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
عمران خان کے لانگ مارچ پر ہونے والے حملے کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی ضرورت ہے۔ اس حملے میں جو بھی شامل ہیں وہ یقیناً ملک دشمن ہیں اور ملک کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ یہ وہی دشمن ہیں جو پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ عمران خان کی مکمل اور جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں اسی طرح حامد ناصر چٹھہ اور احمد چٹھہ کے لیے بھی بہت ساری دعائیں ہیں۔ موجودہ حالات اتحاد، اتفاق اور مذاکرات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ آگے بڑھیں بات چیت کریں اور اپنے مسائل خود حل کریں۔