آئین پاکستان میںدفعات 62-63کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں داخل دستور کیا گیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے ان دفعات کو داخل آئین کیا وہ ریاست کے خیر خواہ اورمحبِ وطن تھے۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست صاف ستھری ہو، جو لوگ اقتدار میں آئیں وہ اعلیٰ اخلاق و کردار رکھتے ہوں،اس کے لئے جو شرط لگائی گئی اُس کے لئے ’’صادق وامینـ ‘‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی۔ اب تک اس اصطلاح کی زد میںآکر اعلیٰ عدالتیں اور الیکشن کمشن درجنوں سیاستدانوں کو سیا ست سے باہر کر چکے ہیں۔
زد میں آنے والے اعلیٰ منتخب عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دیئے گئے۔ دفعات 62-63کی زد میں آکر تین بار وزیرِاعظم رہنے والے ایک سیاستدان زندگی بھر کے لئے ’’مردود‘‘ ہو گئے، اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ اگرچہ اب انصاف کے اداروں نے زندگی بھر کے لئے نااہل کرنے کو غیر مستحسن قرار دیاہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیازس لیے اس کے ہر شعبے میں نیک اور صاحب کردار لوگ بیٹھے ہوں لیکن اس خواہش یا آرزو کی تکمیل کے لئے درتوبہ مقفل نہیں ہونا چاہیئے۔ ’’امین و صادق‘‘ کی اصطلاح نبی کریمﷺ کی ذات مبارک کی پیروی میں لی گئی ہے ، لیکن آئین سازوں کا دھیان ادھر نہیں گیا کہ امین و صادق کا لقب جناب ِ رسالت مآب کی نبوت کی دلیل تھا۔ کفارِ مکہ بھی یہ کہنے پر مجبورتھے، کہ آپ ؐ امین و صادق ہیں لیکن جو کلام سناتے ہیں اُسے ہم نہیں مانتے ۔ یہ اصطلاح دلائل النبوۃ کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ تعّجب ہے کہ نبوت خیرالبشر کی دلیل بلکہ معجزہ کو آج کے دورمیں اور ہر قسم کی برائیوں سے بھرے معاشرے میں اسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے در توبہ بند نہیں کیا مگر ہم نے اس دروازے کو بند کر دیا بلکہ داخل آئین کردیا اور پھر اس آڑ میں سیاسی حریفوں کے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کئے۔ کیا جمہوری اور آئینی اداروں میں بیٹھے لوگ دودھوں نہائے ہوئے ہیں دُنیا بھر کی آئیڈیل جمہوریتوں کے آئین ، امین وصادق کی اصطلاح سے محروم ہیں ۔ ہم گزشتہ 34،35 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ان اصطلاحات کو کِس قدر غلط استعمال کیا جارہاہے۔
نبی کریمﷺ نبوت سے پہلے ہی امین و صادق کے لقب سے مشہور ہو چکے تھے۔ کفارِ مکہ، کلام الٰہی بہ زبان نبوت سُن کر جھٹلانے سے اپنے آپ کو قاصر پاتے تھے۔ محض ہٹ دھرمی سے انکار کئے جاتے تھے۔ اُن کے پاس کلامِ الٰہی کو جھٹلانے کے لئے کوئی قابلِ قبول دلیل نہ تھی۔
نبوت سے پہلے ہی زبانیں نبی پاکﷺ کے اخلاق حسنہ کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھیں، جناب رسالت مآب کو امین وصادق کا سرٹی فکیٹ کسی سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن نے نہیں دیا بلکہ آپ کا اخلاق و کردار ہی ایسا تھا کہ دوست اور دشمن اِس کے آگے سر جھکا نے پر مجبور تھے۔ چنانچہ نبوت ملی تو مشرکین مکہ کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوگئی ، اس دلیل کے ساتھ، کہ جس نے آج تک جھوٹ نہیں بولا وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر نبوت کا غلط دعویٰ کِس طرح کرسکتا ہے۔
کفار کو آپ ؐ کی صداقت کا کس قدر یقین تھا متعدد واقعات اس کے شاہد ہیں خاص طور پر ہجرت کے دن تک کفار کے زیورات اور دیگراثاثے رسالت مآب کے پاس بہ طو ر امانت رکھے تھے۔ چنانچہ آپ ؐنے انہیں لوٹا نے کے لئے حضرت علیؓ ؓ کو متعین کیا ، جنہوں نے بڑی احتیاط سے پائی پائی مالکان کو لوٹا کر سرورِ کائنات کے ارشاد کی تعمیل کی۔
ہماری اسمبلیوں میں ایسے لوگ ہونے چاہیئں، جو اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے نزدیک باکردار اور کبائر کے ارتکاب سے پاک ہوں ، یہاں پولیس کے نیک چلنی سرٹیفیکیٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں سے سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بہ کثرت موجود ہوں ۔
نبی کریمﷺ کے بعد بھی کوئی امین وصادق ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے یا جس کو یہ سرٹی فیکیٹ دیا جاسکے۔ خدا کا خوف کریں ’’ امین و صادق‘‘ کے چکر میں نہ پڑیں صاحبِ کردار نیک آدمی تلاش کریں۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ اسمبلیوں میں اچھی شہرت کے حامل لوگ پہنچیں۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی پارلیمنٹ میں آدھے سے زائد ارکان کرپشن سمیت مختلف جرائم میں ملوث اور پولیس اور عدالتوں کو مطلوب ہیں، لیکن کام چل رہا ہے۔اب تو لوگوں کی اکثریت کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ بعض اداروں نے امین و صادق قرار دیئے اور بعض بھلے مانس خائن اور کاذب قرار پاکر زندگی بھر کے لئے نااہل ٹھہرے۔ امین وصادق کے پردے میں کیا کچھ نہیں چُھپ گیا۔
سورۃ الحجرات میں جو اخلاقی احکامات دیئے گئے ہیں ریاستِ مدینہ بنانے کے دعوے داروں نے خود ہی اُن کی خلاف ورزی کی انتہا کردی ۔ قرآن مجید نے غصہ پی جانے اور معاف کرنے کی تحسین کی ہے لیکن یہاں انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی ۔قرآن مجید نے جرم کا بار ثبوت ملزم کی بجائے مدعی پر ڈالا ہے۔ یہاں سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ ریاستِ مدینہ بنانے کے لئے تو صحابہ کرام ؓ یا تابعین کے درجے کے لوگ ہونے چاہئیں۔ اہلِ علم پوچھتے ہیں کہ یہ جو اُن کے اردگرد لوگ ہیں کیا ان کے ہاتھوں ریاست مدینہ بن سکتی ہے۔
محترم قارئین ! کالم نگار گزشتہ دو سال سے بستر علالت پر ہے۔ہاتھ قلم پکڑ کر لکھنے سے اور دماغ کچھ سوچنے سے عاجز ہے ۔ یہ بے ترتیب افکار برسوں سے ذہن میں کلبلارہے تھے۔ کئی نشستوں میںا نہیں مکمل کیا۔محب وطن قارئین اس پر خامہ فرسائی فرمائیں۔
خلاصہ کلام دفعات 62،63یعنی امین صادق جو صرف اور صرف دلیل نبوت تھی، آج ایسے لوگ مل سکتے ہیں۔جو اس کے مصداق ہوں ہمیں صحابہ کرامؓ بننے کی بجائے صحابہ کرامؓ کی پیروی کرنی چاہئے۔شائد اللہ تعالیٰ ہماری یہ کوشش کامیاب فرما دے۔
٭…٭…٭