جوبائیڈن کے پاکستانی نیوکلیئر پروگرام پر’ تبصرے ‘


ہمارے ملک میں آئے روز حالات اس قدر تیزی سے رنگ بدلتے ہیں کہ ایک روز قبل ہیجان برپا کرنے اور عوام کا سکون تک برباد کردینے والے واقعات پس پشت چلے جاتے ہیں اور اس کی جگہ نیا وقوعہ لے لیتا ہے۔ قارئین کو امریکی صدر جوبائیڈن کا 15 اکتوبر 2022ء کو لاس اینجلس میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف دیا گیا بیان یادہوگا جس کیخلاف پاکستان کے اندر سے شدید رد عمل سامنے آیا ۔ یہ احتجاج بنتا بھی تھا کیونکہ امریکی صدر لاس اینجلس میں اپنی سیاسی جماعت ڈیمو کریٹس کیلئے رقوم جمع کرنے کیلئے منعقد کی گئی ایک بڑی تقریب میں شریک تھے۔ جس میں یوکرائن پر روس کے حملے کی وجہ سے امریکی عوام میں پائی جانے والی تشویش پرجوبائیڈن کا بات کرنا بنتا تھا اور چین کو جوبائیڈن پہلے ہی امریکہ کا سب سے بڑا دشمن قرار دے چکے ہیں، یوں روس و چین کیخلاف بات کرتے ہوئے انکی طرف سے پاکستان کو خطرناک ملک قراردیاجانا اور ساتھ ہی پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو غیر محفوظ قرار دینا حیران کن ہی نہیں پاکستان کے ہر شہری کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ پاکستان کی طرف سے بھرپور احتجاج کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے متعدد بار اپنی وضاحتی بیانات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تعریف اور ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ قراردیا، جس کے بعد پاکستان میں حسب روایت ہم سب اس مسئلے کو بھول کر نئے معاملات میں مصروف ہوگئے۔ لیکن بھارت کے اندر جوبائیڈن کے بیان پر نریندر مودی سرکار کی طرف سے بغلیں بجانے پر وہاں کے دفاعی تجزیہ نگاروں نے بھارت کے اپنے ایٹمی دفاع نظام پر سوالات اٹھادیئے اور 3مارچ 2022 ء کو بھارت کے اندر سے فائر کیے گئے براہموس کروز میزائل کے بھارتی سرحد سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 124کلومیٹر پاکستان کے اندر جاگرنے۔دو روز تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد اسے حادثاتی فائر قرار دینے کو سنگین مذاق قرار دیتے ہوئے اس عمل کو بھارتی Joint Doctrine for the Indian Armed Forcesسے انحراف قرار دے دیا گیا ۔ بھارتی صحافی پَوّنـ جوت نے 24اکتوبر 2022ء  کو اپنی ویب سائٹ پر 2017ء میں ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے حوالے سے بھارتی کابینہ میں منظور کی گئی ڈاکٹرائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس ڈاکٹرائن کے مطابق کوئی بھی ایسا میزائل جو ایٹمی اسلحہ لے جانے کی استعداد رکھتا ہواسے فائرکر نے کا اختیار صرف اور صرف بھارت کے وزیراعظم کے پاس ہے ۔ اس ڈاکٹرائن کیمطابق وزیراعظم India's Nuclear Command Authority (NCA) کاسربراہ ہے جبکہ براہموس کروز میزائل جو 3مارچ کو بھارتی وزارت دفاع کے مطابق حادثاتی طور پر فائر ہوا اور پاکستان کے اندر آبادی کے انتہائی قریب جاگرا اسکے بارے میں بھارت سرکار کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق یہ میزائل ایٹمی اسلحہ لے جانے کی استعداد رکھتا ہے ۔تاہم جب حادثاتی طور پرفائر ہوا تو ایٹمی ہتھیار سے لیس نہیں تھا اگر یہ میزائل آبادی پر گرتا تو پاکستان میں بہت سے افراد مارے جاتے۔ پاکستان اسے حملہ قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کرسکتا تھا۔یوں بھارت کی غلطی دونوں ملکوں کے درمیان بڑی خوفناک جنگ کا سبب بن سکتی تھی ۔ بھارت نے 24 اگست 2022 ء کو غلطی سے براہموس میزائل فائرکرنے کی ذمہ داری انڈین ایئرفورس کے 3افسران پر ڈالتے ہوئے انہیں ملازمت  سے نکال باہر کرتے ہوئے اپنی ہی نیوکلیئر وارڈ اکٹرائن کی قلعی کھول دی کہ اسکا اختیار بھارتی وزیراعظم کے پاس نہیں بلکہ انڈین ایئرفورس کے نچلے درجے کے افسران بھی ایٹمی اسلحہ سے لیس براہموس کروز میزائل فائر کرسکتے ہیں۔پَوّن جوت کاکہنا تھا کہ اصولی طور پر جب براہموس میزائل کے حادثاتی فائر کو تسلیم کیاگیا تو اسکی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انڈین ایئرفورس کے چیف کو رضاکارانہ طورپر اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے تھا اورساتھ ہی بھارتی وزیردفاع راج ناتھ کو بھی اپنی وزارت سے مستعفی ٰ ہوجاناچاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہ کرنا ایٹمی استعداد کے حوالے سے بھارت کے غیر ذمہ دار انہ رویے کو ظاہر کرتا ہے ۔ جو صرف بھارت کے دشمنوں کیلئے ہی نہیں بلکہ بھارت کے اپنے عوام کیلئے بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔اور اگر 3مارچ کو ’’حادثاتی فائر‘‘ قراردیا جانے والا براہموس کروز میزائل پاکستان کی بجائے بھارت میں کسی آبادی پر جاگرتا تو کوئی سوچ سکتا ہے کہ بھارت کا ردعمل کیا ہوتا؟
اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے پَوّن جوت لکھتی ہے کہ بھارت سرکار اسے پاکستان کی طرف سے کیا گیا حملہ قرار دے کر ایک انتہائی خوفناک جنگ کا آغاز کردیتی۔ کیونکہ بھارت کی حکومت میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو براہموس میزائل کا نشانہ بنانے کے بعد اسے حادثاتی فائر قراردیتی اور اقتدار سے بھی چمٹی رہتی ۔ پَوّن جوت کیمطابق بھارت نے چین اور پاکستان کی سرحدوں کے قریب تین رجمنٹس تعینات کررکھی ہیں جوکہ ایٹم بم بردار براہموس میزائلوں سے لیس ہیں جبکہ چوتھی رجمنٹ تعیناتی کے مراحل میں ہے۔ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اور چین نے بھی اپنے ایٹمی میزائلوں سے بھارت کا گھیرائو کررکھا ہے ۔3مارچ کو پاکستان کے اندر فائر کئے گئے براہموس میزائل پر بھارت سرکار کی 2روز تک پر اسرار خاموشی پرردعمل دیتے ہوئے عالمی دفاعی ماہرین اس خطرہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ بغیر ایٹمی اسلحہ کے براہموس میزائل فائر کر کے بھارت پاکستان کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا ،دوسرے لفظوں میں انہوںنے خدشہ ظاہر کردیا کہ یہ حادثاتی فائر نہیں تھا ۔ اسکے باوجود بھارت نے جب اسے حادثاتی فائر تسلیم کرلیا تو اسکے ذمہ داروں کا تعین کرنے میں چھ ماہ لگادیئے گئے ۔ ظاہر کیاگیا کہ ایئرفورس کے تین افسران کو بطور سزا ملازمت سے فارغ کیا جاچکا ہے جبکہ انڈین ایئرفورس کے اندر سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تینوں افسران کو پہلے توچھٹی پر بھیجا گیا بعد ازاں ان کا دوسرے کسی مقام پر تبادلہ کردیا گیا ۔ پَوّن جوت نے 15اکتوبر کو لاس اینجلس میں امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستان ایٹمی پروگرام کے بارے میں دیے گئے بیان پر پھر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر امریکہ جیسے ملک نے مارچ 2022 ئمیں بھارتی براہموس بیلاسٹک کروز میزائل کے پاکستان میں جاگرنے پر خاموشی اختیار کیے رکھی توہم بھارتیوں کو اس پر خوش ہونے اور امریکہ کو بھارت کا دوست سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے  بلکہ اپنی کوتاہی کا ادراک کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کبھی پاکستان و بھارت کے درمیان جنگ ہوئی اور نوبت ایٹمی اسلحہ کے استعمال تک پہنچی تواس جنگ میں آبادیوں کے تناسب کی وجہ سے بھارت کو زیادہ جانی ومعاشی نقصان کا سامنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن