”خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے“


 آواز ....پروفیسر محمد ابرار شاہ بخاری 
  peerji63@gmail.com
ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شانے کہا تھا کہ وہ مقام جہاں شوق قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش قسمتی کہتے ہیں یعنی جو انسان کا شوق، مزاج اور رجحان ہو وہی اس کا پیشہ بھی بن جائے۔ یہ اللہ کی رحمت اور اُس کا بے پایاں احسان ہے کہ اُس نے مجھے میرے شوق اور رجحان طبع کے مطابق درس و تدریس کے پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ کیا۔ مجھے اس شعبے میں کم و بیش چالیس سال ہو چکے ہیں اور میں نے اللہ کی توفیق سے بساط بھر امکانی کوشش کی ہے کہ میں اپنے محدود علم سے نہ صرف طلباءو طالبات کو فیض پہنچا¶ں بلکہ ان کی تربیت کر کے ان کی تعمیر سیرت اور کردار سازی بھی کر سکوں۔ کیونکہ استاد کا اصل کام تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طلباءو طالبات کی ذہنی،فکری، اخلاقی، تہذیبی اور نظریاتی تربیت کرکے انہیں بہترین انسان بنانا ہے، تعلیم وتربیت لازم وملزوم ہیں، تربیت کے بغیر ڈگری تو مل جاتی ہے لیکن علم کا اصل جو ہر ہاتھ نہیں آتا۔میں نے تدریسی زندگی کا آغاز گورنمنٹ اےسوسی اےٹ کا لج آف کامرس مری سے کیا تھا، جہاں میرا قیام چار سال تک رہا، درس و تدریس کے علاوہ میں دفتری امور بھی سرانجام دیتا تھا۔ میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ مجھے پرنسپل فضل تواب کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ مرحوم نہایت فہیم، دوراندیش اور اعلی درجے کے منتظم تھے جو درسگاہ کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے اور انہوں نے کالج کیلئے زمین کے حصول میں شبانہ روز کام کیا۔ ان کی محنت اور کاوشوں کے نتیجے میں کالج کیلئے زمین اور پھر کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام پایہ تکمیل تک پہنچا یقینا اللہ نے اُن کو اپنی بے کراں نعمتوں سے نوازا ہو گا اور و ہ چشم تخیل سے جنت سے اپنی محنت کا ثمر دیکھ کر خوش ہور ہے ہوں گے۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں اس صدقہ جاریہ پر اجرعظیم عطافرمائے۔نا مناسب نہ ہوگا اس موقع پر محترم پروفیسر راجہ فرخ حسن کا ذکر کیا جائے جن کے بھائی اس وقت اسسٹنٹ کمشنر مری تعینات تھے اور جنہوں نے غیرمعمولی دلچسپی اور تعاون سے ادارے کیلئے زمین کے حصول کی کوشش کی اور ان کی معاونت سے مری کے طلباءطالبات کو کا مر س کی تعلیم کا بہترین ادارہ میسرآیا۔ ان تمام حضرات کی کوششیں قابل تحسین ہیں ۔مجھے مسرت ہے کہ کالج کیلئے زمین کے حصول اور عمارت کی تعمیر کے مراحل میں اس خاکسار نے بھی کچھ خدمات انجام دیں۔ گزشتہ پانچ چھ سال سے انوار حسین کالج پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دے ر ہے ہیں۔ وہ ایک متحرک، فعال اور عملی انسان ہیں اور کالج کی تعمیر، تزئین اور بہتری و فلاح کیلئے شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں مری جانے کا اتفاق ہوا تو جناب فضل تو اب مرحوم کے لگائے ہوئے پودے کو ایک گھنا اور چھتنار درخت دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ دعا ہے کہ ا للہ اس ادارے کو ترقی، استحکام اور کامیابی عطا فرمائے اور یہ ہمیشہ علم و عرفان کی کرنیںبکھیرتا ہوا تشنگان علم کیلئے مینارہ نور بنارہے۔
آج سے کم و بیش تیس چالیس سال پہلے مری جاتے ہوئے سرسبز جنگلات اور چیڑ کے بلند و بالا درختوں کا نظارہ بہت دلکش لگتاتھا۔ مری کی ساری دلکشی، خوبصورتی اور رونق انہی در ختوں اور جنگلات سے تھی لیکن وقت کے بدلتے ہوئے تیز رفتار دھارے نے زمین سے درخت اُگانے کی بجائے دکانیں، مکان، پلازے اور ہوٹل اگانے شروع کر دیئے جنگل کٹتے گئے اور ہا¶سنگ سوسائٹیاں بڑھتی گئیں۔ پنڈی مری ایکسپرس وے نے آمد ورفت آسان کردی لیکن فطرت کی شکل مسخ کردی۔ جاپان کے ایک ماہر تعمےر نے بتایا کہ جاپان میں جتنی جگہ پر تعمیرات کی جاتی ہیں اتنی ہی جگہ پر درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ فطری ماحول متاثر نہ ہو۔ عالمی معیار کے مطابق کسی ملک کے کل رقبے کا 25 فےصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں جنگلا ت کل رقبے کا صرف 5% ہےں جو درختوں کی بے دریغ کٹائی کے باعث صرف 2% رہ گیا ہے۔ اور خطرہ ہے کہ آنے والے چند سالوں میں درخت صرف تصویروں میں رہ جائیں گے۔ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کو اگر صرف ایک لفظ میں بیان کرنا ہو وہ لفظ ہے ''ضیاع©"۔ ہم نے نہایت بے دردی ، نا قدری اور بے حسی سے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور وسائل کو ضائع کیا ہے۔ منیر نیازی کا یہ شعر پوری تاریخ کا آشوب بیان کرتا ہے۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے ، یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں انتہا کا جغرافیائی اور موسمیاتی تنوع ہے۔ قدرتی وسائل کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو اللہ نے پاکستان کو نہ عطا کیا ہو۔ سمندر، ساحل، دریا، پہاڑ، گلیشیئر ،جنگلات، معدنیات ہر نعمت کی فراوانی اور بہتات تھی جو گنوادی گئی ۔ دنیا کی 14 بلند ترین چوٹےوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں۔ قطب شمالی سے باہر دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئرز پاکستان میں ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں زیادہ بلند پہاڑ نہیں لیکن یہ قومیں کوہ پیمائی کی دلدادہ ہیں۔ پاکستان میں صرف کوہ پیمائی کا اتنا سکوپ ہے کہ اگر اس شعبے کو جدید تقاضوں کے مطابق عالمی معیار کی سہولتیں فراہم کی جائےں تو اس سے پاکستان سالانہ کروڑوں ڈالر کما سکتا ہے اس لیئے ایک امریکی کوہ پیمانے کہا تھا کہ اگر امریکہ میں 2-K جیسا ایک پہاڑ بھی ہوتاتو امریکہ اس سے کروڑوں ڈالر کماتا۔ مجھے ایک دوست کے والد نے جو سنٹرل انسپکٹر آف مائنز تھے بتایا کہ پاکستان میں معدنیات اورقیمتی پتھروں کے اتنے وسیع اور وافر ذ خائر ہیں کہ صرف انہیں کام میں لاکر پاکستان اپنا سارا قرضہ اتار سکتا ہے لیکن وہ جو اقبال نے کہا تھا
بے محنت پیہم، کوئی جوہر نہیں کھلتا
 روشن شرر سنگ سے ہے تےشہ فرہاد
عدم توجہی ، منصوبہ بندی کے فقدان ، مشےنری اور جدےد ٹےکنالوجی اور ماہرےن کی غےرموجودگی کی وجہ سے ےہ بےش بہا خزانے پہاڑوں اور زمےن کے اندر دفن اور پوشےدہ ہےں اور کسی کو احساس نہےں کہ ہم اللہ کی نعمتوں اور وسائل کی کتنی بے قدری اور ان کا کتنی بے دردی سے ضےاع کررہے ہےں کےونکہ ہماری حالت اور کےفےت اس کاررواں جےسی ہے جس کے بارے مےں اقبال نے کہا تھا۔”کاررواں کے دل سے احساس زےاں جاتا رہا“یورپ کے اکثر ملک رقبے کے لحاظ سے پنجاب سے بھی چھوٹے ہیں مثلاً ڈنمارک، بلجیم، ہالینڈ، سویڈن، ناروے وغیرہ لیکن ان ملکوں کی معیشت بڑی مضبوط اور طاقتور ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں نے اپنے وسائل اور ذرائع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان وسائل اور ذرائع کو محنت سے استعمال کر کے اپنی معیشت کو مستحکم کیا، لیکن ہمارا سب سے بڑا صوبہ پنجاب، جسے اللہ نے پانچ دریا عطا کیے تھے 75 سالوں میں صرف ایک بڑا ڈیم بنا سکا اور دریاﺅں کا پانی ضائع ہو کر ہماری بے حسی، بے قدری، نا لائقی اور کفران نعمت کا مذاق اڑاتا رہا ۔ گزشتہ ماہ مجھے اپنی فیملی کے ساتھ اٹک کے خیر آباد پل کے ساتھ ایک جگہ جانے کا موقع ملا یہاں دو دریا، دریائے سندھ اور دریائے کابل ملتے ہیں اور بڑا دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں لیکن پاکستان کے بڑے دریا پر بھی صرف ایک ڈیم (تربیلا) بن سکا جبکہ کالا باغ ڈیم سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر، زنگ آلو دمشینری اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ہماری غفلت، کوتاہی اور بے حسی کی داستان سنا رہا ہے۔پاکستان کو اللہ کی طرف سے عنایت کردہ بے پناہ قدرتی وسائل کو جس بے دریغ سفاکانہ طریقے، مجرمانہ غفلت اور کوتاہ اندیشی سے ضائع کیا گیا ہے یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ 70 فیصد دیہاتی آبادی رکھنے والا ملک اور اس کے باشندے آٹے کے ایک تھیلے کیلئے ذلیل اور رسواہو ر ہے ہیں یہاں تک کہ کئی افراد آٹے کے حصول میں اپنی جان سے گزر گئے۔چین نے گزشتہ 30 سال کے دوران اپنے 40 فیصد لوگوں کو غربت سے نکالا ہے جبکہ پاکستان میں اتنے ہی عرصے میں 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔من حیث القوم ہم نے یہ تہےہ کرلےا ہے کہ فطرت کو ہر صورت مےں مسخ کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کو اےک اےسا ماحول دےنا ہے جس مےں آبی ، فضائی زمےنی اور شور کی آلودگی سے سانس لےنا محال ہو۔ ملتان مےں آموں کے باغ ختم کرکے ہاﺅسنگ سوسائےٹوں کی فصل اگائی جارہی ہے۔ زمےن سے خود رو پودوں کی شکل مےں اگنے والی ان سوسائےٹوں کے جھاڑ جھنکار نے پاکستان کے جغرافےائی اور فطری ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاےاہے۔ شہر بستے جاتے ہےں ، جنگل کٹتے جاتے ہےں۔ راولپنڈی مری اےکسپرےس وے پر سفر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہوس زر نے پہاڑ ، جنگل اور فطرت تباہ کرکے بے روح عمارتی ڈھانچے کھڑے کردئےے ہےں۔ مجےد امجد نے لکھا تھا اےک درخت کا کٹناانسان کے قتل کے مترادف ہے لےکن پاکستان مےں ےہ قتل عام ہورہا ہے۔ اسلام آ باد کی خوبصورتی اور حسن مارگلہ کی پہاڑےاں ، درختوں ، پرندوں اور جنگلی حےات سے محروم ہو کر ہوٹلوں ، مکانوں ، دوکانوں اور پلازوں کی آماجگاہ بن گئی ہےں ۔ جنگل کی فضائےں اور ہوائےں اس شجر کشی پر نوحہ کناں ہےں۔ پروےن شاکر نے اسی دکھ کے پےش نظر کہا تھا۔
اس بار جو اےندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے 
چڑےوں کو بڑا پےار تھا اس بوڑھے شجر سے 
 اٹک کے پل خےر آباد کے ساتھ ایک ہوٹل کے سبزہ زار میں بیٹھا، جہاں سندھ اور کابل کے دو دریا¶ں کے ملاپ کا ایک دلکش نظارہ ہے، میں سوچ رہاتھا کہ کیا اللہ تعالٰی من حیث القوم ہم سے اور ارباب اقتدار و اختےار سے ےہ نہیں پوچھے گا کہ میں نے تمہےں قدرتی وسائل، نعمتوں اور خزانوں سے بھر پور ایک خطہ زمین نہیں دیا تھا پھر تم نے میری عطا کردہ اس عظےم مملکت اور اس کو ملنے والی نعتوں، وسائل اورذرائع کی قدر کیوں نہ کی اور ان سے بھر پور فائدہ اُٹھا کر ایک ملک خداداد کو میرے دےن کا قلعہ کیوں نہ بنایا؟ یقینا صاحبان

 اقتدار و اختےار خصوصا اور پاکستانی قوم عموما بے حسی، بے قدری اور جرمانہ غفلت کے لئے جواب دہ ہوگی کیونکہ اللہ افراد کو معاف کر سکتا ہے لیکن قوم کی ا جتماعی غلطیوں کو معاف نہیں کرتا ۔
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے 
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
تاریخ عالم بتاتی ہے کہ قومیں اپنی قوت عمل، جذبے ، اتحاد، ےکجہتی ، یگانگت، اخلاص، احساس خود ی و خودداری، لگن، محنت، جستجو، جدو جہد، حرکت ملی غیرت اورجذبہ حب الوطنی سے آگے بڑھتی اور دنیا کی برادری میں عزت ، عظمت اور توقیر پاتی ہیں۔ جاپان اورجرمنی دوسری جنگ عظےم مےں راکھ کے ڈھےر اور کھنڈر بن گئے تھے لےکن جذبہ تعمےر نے ان دونوں قوموں کو کھڑا کر دیا اور آج یہ ا قوام دنیا کی خوشحال اور مضبوط ترےن معےشت ہےں۔بد قسمتی سے آزادی کے 75 سال بعد پاکستان اےک قوم نہ بن سکابلکہ بھےڑوں کے گلے کی طرح منتشر رہا، ابتداءہی سے سےاسی ، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اورتہذےبی بحرانوں، نسلی ، قومی، زبانی اور مذہبی تعصبات اور منافرت ، فرقہ پرستی ، خود غرضی ، مفاد پرستی لوٹ کھسوٹ، بد عنوانی اور ہوس زر اور جاہ و اقتدار نے ہمیں ایک وحدت میں نہ ڈھلنے دیا۔ قائد اعظم کے بعد وہ بے لوث، مخلص، نڈر، دیانت دار اور جرات مند قیادت بھی نہ ملی جس نے 9 کروڑ مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ وہ خواب جس کی تعبیر کیلئے کروڑوں مسلمان آگ اور خون کے دریاسے گزر کرہندوستان سے پاکستان آئے تھے، شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اور آج قوم ماضی کے اندھیروں، حال کی تاریکیوں اورمستقبل کے ظلمت کدوں مےں بھٹک کر خستہ ، درماندہ اور پسماندہ ہے، نہ چراغ راہ ہے نہ نشان منزل ، پاکستان میںبسنے والے 24 کروڑ عوام کسی مسیحا، نجات دہندہ اور راہبر برحق کے منتظر ہیں۔ الطاف حسےن حالی نے اس صورتحال کے پےش نظر بڑی دردمندی سے کہا تھا۔
 
                    ا ے خاصہ خاصان رسل ، وقت دعا ہے
                    امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
                    فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہبان 
                    بےڑا ےہ تباہی کے قرےب آن لگا ہے 

ای پیپر دی نیشن